یہ ہم دوستوں کے روزانہ کا راستہ تھا۔ محمود کو سہراب گوٹھ سے لیتے یا نارتھ کراچی سے خالد اسمٰعیل کو، ہر دو صورتوں میں یہاں وہاں سے ہوتے ہوئے عائشہ منزل ضرور جاتے۔ دہی بڑے، فروٹ چاٹ یا لیمن کولا سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہیں ڈیرہ جماتے۔ وہی عائشہ منزل جو پرلے روز آگ کے شعلوں میں لپٹی دکھائی دی اور دل ڈوب سا گیا۔
سوال یہ ہے کہ بھرے پرے شہر کی عمارتیں آگ پکڑتی کیوں ہیں اور ان میں بسنے والے جیتے جاگتے اور سانس لیتے لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کوئلوں میں بدل کیسے جاتے ہیں؟ اس سوال پر غور تو میں نے برسوں کیا ہے اور شہری آبادیوں کے قاعدے قوانین بھی میرے علم میں خوب ہیں، لیکن استنبول کی خاک چھاننے، اس شہر کے چپے چپے پر بکھری کہانیوں کی سرگوشیاں سننے اور تاریخ کی یادگاریں دیکھنے کے علاوہ میں نے اس شہر سے ایک بات اور بھی سیکھی۔ میں نے یہ جانا کہ شہر منظم کیسے کیے جاتے ہیں اور انہیں حادثوں سے بچایا کیسے جاتا ہے۔
دنیا میں شہروں اور ان کے مختلف مقامات کے دوسرے ملکوں کے شہروں اور مقامات سے مماثلت تلاش کرنے کی روایت پرانی ہے، لیکن میں جب اس شہر کی استقلال جادہ سی یعنی استقلال اسٹریٹ گیا تو حیرت سے آنکھیں کھل گئیں۔ ایک زمانہ تھا، لاہور کی انار کلی کے لیے کہا جاتا تھا کہ اگر شہر کے اس کو چے میں نہیں گئے تو گویا لاہور شہر میں آئے ہی نہیں۔ استقلال جادہ سی اور انار کلی میں کوئی مماثلت تو ذرا سی بھی نہیں لیکن یہ بات میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جس کسی نے اس کوچے میں چہل قدمی نہیں کی، وہ استنبول آیا ہی نہیں۔ اس شہر کا یہ ایسا بازار ہے جو دن رات جاگتا ہے اور یہاں بلا مبالغہ ہزاروں نہیں لاکھوں سیاح ہمہ وقت بازار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اٹھکیلیاں کرتے، اسٹریٹ سنگرز کے گانے سنتے، رقص کرتی ٹولیوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے ٹھمکا لگاتے پیدل چلتے جاتے ہیں۔
برادرم عبد الاکبر نے مشورہ دیا تھا کہ سر، چلتے جایے اور دیکھیے کہ دنیا کیسے اپنے دکھوں اور پریشانیوں کو اس گلی میں داخل ہونے سے قبل اس یادگار کے پاس کہیں چھوڑ آتی ہے جہاں مصطفیٰ کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں کا اجتماعی مجسمہ آزادی کے متوالوں کو مستقل یادہانی کرایا کرتا ہے کہ جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی۔
عبد الاکبر کا کہنا تھا کہ بس آپ نے چلتے جانا ہے اور جب بھوک لگے فلاں چھوٹے سے ریسٹورنٹ کی سیڑھیاں چڑھ کر بھبھل میں بھنے ہوئے آلو کے اس پکوان سے لطف اندوز ہونا ہے جو اس شہر کے سوا کہیں اور نہیں ملتا۔ گھنٹے دو گھنٹے کی آوارہ خرامی کے بعد مجھے وہ ریسٹورنٹ مل گیا جس کی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مجھے وہ سبق ملا جس کی خبر ابھی ہمارے محترم سینیٹر رضا ربانی کو نہیں ہو سکی۔
یہ ایک چھوٹا سا پُرہجوم ریسٹورنٹ تھا جس کی 3 یا 4 منزلوں پر اس کوچے کے یاتری شوق سے آتے اور پیٹ بھرنے سے زیادہ اس دلچسپ اور خوش ذائقہ پکوان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس پکوان سے حظ میں نے بھی اٹھایا لیکن اصل میں یہ جانا کہ شہر کا انتظامی ادارہ یعنی بلدیہ اپنے شہر کو حادثات سے محفوظ رکھنے کا انتظام کیسے کرتی ہے۔ اس ریسٹورنٹ کا رقبہ زیادہ سے زیادہ کتنا ہو گا، ہمارے پیمانے کے مطابق ایک مرلہ یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ مرلہ، لیکن اتنے مختصر سے ریسٹورنٹ میں بھی جو شہر کا کوئی معروف برانڈ بھی نہیں تھا، چپے چپے پر بلدیہ کی مہر نظر آتی ہے۔ ایک خاص اسٹائل کی اطلاعی تختیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی تھیں جن کی مدد سے یہاں آنے والے کو ان چیزوں کی بھی خبر ملتی تھی جو سامنے دکھائی دیتی تھیں یعنی یہ سیڑھیاں ہیں۔ وہ ہنگامی ضرورت کا راستہ ہے اور یہ جگہ فلاں قانونی ضرورت کے لیے مخصوص ہے۔
ہمارے یہاں ایسے چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ تو شاید بلدیہ کے علم میں بھی نہیں ہوتے لیکن استنبول میں اور دنیا کے ہر شہر میں آپ کو یہی انتظام ملے گا جس میں کھانے پینے کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹھیے بھی مقامی حکومت کی شرائط پوری کیے بغیر نہیں بن سکتے وہاں بڑی بڑی بلڈنگز اور مالز کا انتظام کیسا ہو گا، اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ معاملہ صرف کاروباری مقامات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ رہائشی عمارتوں کی نگرانی کی صورت بھی اس سے مختلف نہیں۔ آپ فلیٹس میں رہتے ہیں، یہ طے ہے کہ عمارت کی منزلیں کتنی ہوں گی۔ عمارت کے اندر سیڑھیوں کی چوڑائی کتنی ہوگی۔ ہنگامی حالت میں نکلنے کے راستے کیسے ہوں گے اور جو لفٹ لگائی جائے گی، ایک خاص مدت یعنی مہینے بھر کے بعد اس کی کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ کون جاری کرے گا۔ بجلی اور گیس کی وائرنگ اور دیگر انتظامات کیسے ہوں گے۔ یہ سب معاملات طے شدہ ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ وہ بلدیہ کی طے کردہ حدود سے تجاوز کر سکے۔
مزید پڑھیں
شہر کے حسنِ انتظام کی یہ روداد اول تو عائشہ منزل کے آتشزدگی کے واقعے سے ذہن میں آئی اور دوسرے اس کا سبب عزت مآب رضا ربانی بنے۔ ہم آپ جانتے ہیں کہ ہمارے میاں رضا ربانی صاحب صوبائی خود مختاری اور خاص طور پر 18ویں ترمیم کے سب سے بڑے چیمپئن ہیں۔ ابھی حال میں مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان بلدیات کو مزید خود مختاری دینے اور انہیں فعال بنانے کے سلسلے میں اتفاق رائے ہوا تو انہوں نے شور مچا دیا کہ میاں نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت تو 18ویں ترمیم کا خاتمہ کرنے جا رہی ہے۔ ایسی بات کہنے والے وہ تنہا نہیں تھے بلاول بھٹو زرداری صاحب نے بھی اس مصرع طرہ پر غزل کہنی ضروری سمجھی۔
رضا ربانی صاحب نے کتنی غلط بات کہی، یہ سمجھنے کے لیے 18ویں ترمیم کا جواز سمجھنا ضروری ہے۔ اس ترمیم سے قبل صوبوں کو شکایت تھی وہ مالی معاملات میں مرکز کے سامنے بے بس رہتے ہیں۔ اس ترمیم نے یہ بے بسی ختم کر دی۔ اب صوبوں کے اندر مقامی حکومتوں کو صوبائی حکومت سے بالکل اسی قسم کی شکایت ہے جیسی شکایت صوبے مرکز کے خلاف کیا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف نے صرف یہ فیصلہ کیا ہے کہ مقامی حکومتوں کو ایک آئینی انتظام کے ذریعے اس بے بسی سے نکال دیا جائے۔ مقامی حکومتوں کو بے بسی کی اس کیفیت سے نکالنے کا 18ویں ترمیم سے کیا تعلق ہے، پیپلز پارٹی کے کسی بھی راہنما اور بزرگ نے یہ واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے بلدیاتی ادارے اگر مضبوط ہوتے ہیں اور انہیں اپنے کام میں آزادی مل جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں شہر ترقی کریں گے۔ ہمارے شہری بھی دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرح عائشہ منزل جیسے حادثات سے محفوظ رہ سکیں گے اور ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں میسر آ سکیں گی۔ 18ویں ترمیم کی آڑ میں بلدیاتی اداروں کو بے دست و پا رکھنے والے کیا یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے شہروں میں عائشہ منزل کے حادثے جیسی آگ بھڑکتی رہے اور لوگ اسی طرح آگ کا لقمہ بنتے موت کے گھاٹ اتارتے رہیں۔