سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔
امام قیصرانی بنام میر بادشاہ قیصرانی انتخابی عذرداری کیس کی سماعت کے دوران لیے گئے نوٹس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھیج دیاہے، کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائےگا، موجودہ کیس کا نوٹس 2 انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیاجائے۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، عدالتی استفسار پر درخواست گزار میر بادشاہ قیصرانی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں ان کے موکل کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ قابل سماعت معاملہ کیسے ہے، درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی کا موقف تھاکہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا۔ جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ اس کیس سے موجودہ انتخابات متاثر ہوں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے، وکیل درخواست گزار بولے؛ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔
چیف جسٹس بولے؛ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی 5 سال کی ہوگی۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی 5 سال نااہلی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے، درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی ہے۔
کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد آج کی کارروائی کے حکمنامہ کے مطابق تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے، کمیٹی طے کرے گی لارجر بینچ 5 رکنی ہوگا یا 7 رکنی۔
عدالتی حکمنامے کی نقل الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے تو بن سکتی ہے۔