جب کوویڈ پھیلا اور لاک ڈاؤن شروع ہوا اور لوگ مرنے لگے تو مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اللہ ہی اس کا مداوا کرے گا۔ اور پھر ویکسین آ گئی۔ مولانا صاحب نے اسے آسمانی مدد کے بجائے اغیار کی شرارت جانا۔ پھر آپ بھی جب کوویڈ میں مبتلا ہو گئے تب آپ کو بھی اغیاری علاج کا سہارا لے کے شفایاب ہونا پڑا۔ اس کے بعد آپ کی جانب سے کوویڈ ویکیسن کی افادیت پر کوئی رائے نہیں آئی۔ لیکن ان ہزاروں مریدوں اور مداحوں کا کیا جنہوں نے اتباعِ جمیل میں ویکسینسیشن سے اجتناب برتا۔ ان میں سے کئی شاید مولانا صاحب کی کایا کلپ سے پہلے ہی مر گئے ہوں۔
مرحوم عامر لیاقت حسین جب بول چینل پر ’ایسا نہیں چلے گا‘ کے نام سے پروگرام کر رہے تھے تو انہوں نے حکومت و ریاست کے ناقد کئی بلاگرز کو اپنے لسانی نیزے کی انی پر رکھ لیا۔ کھل کے انہیں غدار، پاکستان دشمن، اسلام دشمن اور بھارتی ایجنٹ کہا۔ کئی بلاگرز کی جان کو خطرہ لاحق ہوا ۔کچھ کو ملک چھوڑنا پڑا۔
مگر بہتر یہ ہوا کہ بول چھوڑنے کے بعد اور پھر یہ جہان چھوڑنے سے پہلے عامر لیاقت نے اپنے اس فعل کو نادانی قرار دیتے ہوئے معافی مانگ لی۔ تب تک ان کی تیغِ زبان سے کئی زندگیاں زخمی ہو چکی تھیں۔
عمران ریاض خان کا شمار اس ملک کے مقبول اینکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا تھا ( اب کا نہیں معلوم)۔ ان کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ انہیں تحریکِ انصاف کا غیر مشروط وکیل سمجھا جاتا تھا۔ ان کی سب سے زیادہ فالوئنگ بھی اسی حلقے میں تھی۔ مگر انہوں نے دیگر کئی اینکرز، انفلوئنسرز کی طرح صحافت کے بجائے اسٹیبلشمنٹ نواز نظریے سے کمٹمنٹ نبھایا اور غیر جانبداری کو ایک جانب لپیٹ کے رکھ دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جب اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں ماتھے پر آ گئیں اور کل کا دوست آج کا دشمن بن گیا تو 9 مئی کے بلڈوزر تلے سب ہی آ گئے۔ عمران ریاض خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو سب کشتیاں جلا دینے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
مگر اچھا یہ ہوا کہ جب ان کی آنکھوں پر چار پانچ ماہ تک پٹی بندھی رہی تو ان کی آنکھوں پر سے نادیدہ پٹی اتر گئی۔ منظرِ عام پر آنے کے بعد انہوں نے بڑائی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے پہلے یوٹیوب انٹرویو میں ان تمام لوگوں سے معافی مانگی جن کے جبری اغوا ہونے والے پیاروں کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے یقیناً ملک و قوم کے خلاف کچھ ایسا کیا ہوگا کہ ریاست انہیں اٹھانے پر مجبور ہوئی۔
اب عمران ریاض کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے سابقہ موقف کا زبان و بیان کے ذریعے کفارہ ادا کریں گے۔ انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ جن کا باپ، بھائی، بہن غائب ہوتے ہیں ان پر کیا بیتتی ہے۔ بقول ان کے کوئی بھی مجرم اس سلوک کا حق دار نہیں۔ سب کو بالائے آئین و قانون غائب کرنے کے بجائے قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے جو کہ بنیادی انسانی حق ہے۔
جب عمران ریاض غائب کیے گئے ہم نے تب بھی ان کے لیے اتنی ہی آواز اٹھائی تھی جتنی کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے دیگر دوستوں کے لیے۔ کل بھی اگر ان کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارا طرزِ عمل یہی ہوگا۔
لیکن اس وقت جب میں یہ سب تحریر کر رہا ہوں۔ حامد میر نے ٹوئٹ کیا ہے کہ بلوچستان میں ایک اور بچہ غائب ہو گیا ہے جو پانچویں کلاس کا طالبِ علم تھا۔ جبکہ خضدار میں جس نوجوان بالاچ مولا بخش بلوچ کو ایک ماہ پہلے حراست میں لے کے ہلاک کیا گیا۔ اس کے ورثا اور انسانی و سیاسی حقوق کے کارکنوں کا جلوس انصاف کی تلاش میں تربت سے با پیادہ خضدار پہنچا ہے اور اب وہ کوئٹہ کی طرف جا رہا ہے۔ جبکہ نگراں صوبائی وزیرِ داخلہ دھمکی دے رہے ہیں کہ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ حالانکہ سی ٹی ڈی بلوچستان کے ان 4 اہلکاروں کے خلاف طویل احتجاجی دھرنے کے نتیجے میں قتل کا پرچہ بھی کٹ چکا ہے جن پر بالاچ سمیت 4 نوجوانوں کی ماورائے عدالت ہلاکت کا الزام ہے۔
غائب ہونے کا تجربہ تو ہمارے سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا بھی ہے۔ یہ وہی شیخ صاحب ہیں جنہوں نے وزیر ہوتے ہوئے متاثرین کے وفد سے ملنے سے انکار کر دیا تھا جو اپنی فریاد لے کے کوئٹہ سے اسلام آباد کے ریڈ زون تک پہنچا تھا۔
مجھے وہ منظر بھی یاد آ رہا ہے جب سنہ 2014 میں نواز شریف حکومت کے وفاقی وزیر اور جزوقتی اسٹیبلشمنٹی ناقد خواجہ محمد آصف کراچی پریس کلب کے باہر لگے ماما قدیر بلوچ کے کیمپ میں کچھ دیر بیٹھے تھے اور یقین دلایا تھا کہ لوگوں کے غائب ہونے کا مسئلہ اگلے ایک ماہ میں حل ہو جائے گا۔
ضروری نہیں کہ ہر مسئلہ سیاستدانوں کے بس میں ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ انہیں اس مسئلے سمیت قوم کو درپیش بنیادی سنگین مسائیل کا ادراک نہ ہو۔ مگر شاید انہیں ملک کو آج درپیش تمام مسائل کا علم نہ ہو۔ ہر ملک کو کبھی نہ کبھی ان سے واسطہ پڑتا رہا اور پھر انہوں نے رفتہ رفتہ ان مسائل پر کسی حد تک قابو پا لیا۔
اگر ہمارے تمام اینکرز، سیاستداں، جج، جرنیل، علما اور ریاستی بیانیے کے غیر مشروط وکیل علمِ تاریخ کا واجبی مطالعہ بھی مسلسل جاری رکھیں تو کم ازکم وہ ان فکری غلطیوں سے کسی حد تک بچ سکتے ہیں جن کا انجام دیوار پر موٹا موٹا لکھا ہوا ہے۔
پرانی غلطیاں بھیانک نتائج دیکھنے کے باوجود بار بار دھرانے سے کہیں بہتر ہے کہ نئی غلطیاں کی جائیں تاکہ انہیں درست کرنے کے لیے نئے طریقے بھی سامنے آتے رہیں۔ اور ذہنی ترقی کسے کہتے ہیں؟
مگر یہ سب کرنا اتنا آسان ہوتا تو فراز کبھی نہ کہتا۔
ستم تو یہ ہے کہ عہدِ ستم کے جاتے ہی
تمام خلق مری ہم نوا نکلتی ہے