ہوشرُبا مہنگائی نے شہریوں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے

جمعہ 3 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث مہنگائی کی حالیہ لہر نے جہاں غریب غربا کو ڈبو دیا ہے وہیں سفید پوش طبقے اور امیروں کے کَس بل بھی نکال دیے ہیں ۔

رواں برس آٹا، دالیں، گھی، مرغی سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ گزشتہ ماہ فروری میں افراط زر کی شرح 31 اعشاریہ 5 فیصد رہی جس نے ملک میں مہنگائی کا 48 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔

ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں 1975 میں افراط زر 29 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی جب کہ رواں برس فروری میں افراط زر کی شرح 31.5 فیصد رہی۔

ادارہ شماریات کے مطابق فروری 2022 سے فروری 2023 کے دوران پیاز کی قیمت میں 416 فیصد، چکن 96 فیصد، انڈے 78 فیصد اور چاول کی قیمت میں 77 فیصد اضافہ ہوا۔

چنا 65 فیصد، سگریٹ 60 فیصد، مونگ کی دال 56 فیصد، چنے کی دال 56 فیصد، آٹا 56 فیصد، ماش کی دال 50.77 فیصد اور خوردنی تیل 50.66 فیصد مہنگا ہوا۔

شہروں میں آٹا 55.92 فیصد، چکن 96.86 فیصد، پیاز 416.74 فیصد، چاول 77.81 فیصد، کوکنگ آئل 50.66 فیصد، خوردنی گھی 45.89، انڈے 78.73، دال مونگ 56.43 فیصد، دال چنا 55.99 اور سبزیاں 11.60، فیصد مہنگی ہوئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں دیہی علاقوں میں گندم 82.33 فیصد، آٹا 48.91 فیصد، چکن 100.14 فیصد، پیاز 517.77 فیصد، چاول 74.98 فیصد، گھی 42.10 فیصد اور دال مونگ 64.18 فیصد مہنگی ہوئی۔

تازہ پھل 45 فیصد، تازہ دودھ 32 فیصد، مسور کی دال27 فیصد، مشروبات 24 فیصد، آلو 22.42 فیصد، مچھلی 21 فیصد، گوشت 20.82 فیصد اور سبزیاں 11.60فیصد مہنگی ہوئیں۔

ایک سال کے دوران درسی کتب کی قیمتوں میں 74 فیصد، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 63 فیصد،گیس کی قیمت میں 62 فیصد، اسٹیشنری کی قیمت میں 61 فیصد، صابن ڈٹرجنٹس اور ماچس کی قیمت میں 51.63 فیصد اضافہ ہوا۔

ماہ فروری میں شہروں میں مہنگائی کی شرح میں 4.54 فیصد، اور دیہی علاقوں میں 4.01 فیصد اضافہ ہوا۔ جولائی تا فروری مہنگائی کی شرح 26 اعشاریہ 19 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ رواں مالی سال تجارتی خسارے میں 33 اعشاریہ 18 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔

بڑے شہروں ادرک اور لہسن 640 روپے، چکن 654 روپے کلو، گھی 600 روپے کلو، کریلا 400 روپے کلو، دال مونگ 300 روپے کلو اور چاول 400 روپے کلو پر پہنچ چکے ہیں۔

خریداروں کی دہائی اپنی جگہ لیکن دکاندار بھی کہتے ہیں کہ اتنے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں کہ اشیائے ضروریہ منگوانا بھی بس سے باہر ہے۔ آئے روز مہنگائی نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔

گاڑیوں کے پرزہ جات 38 فیصد مہنگے ہوئے جبکہ مقامی اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی 33 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی مہنگائی کا طوفان

یوٹیلیٹی اسٹورز پر دودھ، چائے، کریم اور جوسز کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز پر ایک لیٹر دودھ 30 روپے تک مہنگا کر دیا گیا۔اب فی لیٹر دودھ کا پیک 217 سے بڑھ کر 247 روپے کا ہو گیا ہے۔

900 گرام چائے کی قیمت میں 250 روپے تک اضافہ کیا گیا ہے جس سے 900 گرام چائے کا پیک 1490 روپے سے بڑھ کر 1740 روپے کا ہوگیا ہے۔

200 گرام کریم کی قیمت میں 20 روپے اور ایک ہزار ایم ایل جوس کی قیمت میں 10 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا امکان

مشتری ہوشیار باش، لگژری امپورٹیڈ سامان پر ٹیکس 17 سے 25 فیصد کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ 25 فیصد سیلز ٹیکس کا نوٹی فیکیشن کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے (آج) سرکولیشن سمری کے ذریعے منظوری لیے جانے کا امکان ہے۔

لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس بڑھانے سے ایف بی آر کو چار ماہ میں 15 ارب روپے کی آمدن ہوگی۔سرکولیشن سمری کے ذریعے منظوری لے کر ایف بی آر نوٹیفیکیشن جاری کرے گا۔

ذرائع ایف بی آر کے مطابق امپورٹڈ الیکٹرونکس آئٹمز، خواتین کے لیے امپورٹڈ میک اپ، امپورٹڈ لپ اسٹک، فیس پاؤڈر، بالوں کے لیے رولر اور ڈرائرز پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد ہو گی۔

پالتو جانوروں کی امپورٹڈ خوراک، امپورٹڈ برانڈڈ شوز، امپورٹڈ برانڈ پرس، امپورٹڈ شیمپو، صابن اور لوشن پر بھی سیلز ٹیکس 25 فیصد ہو جائے گا۔
امپورٹڈ برانڈ ہیڈ فونز، آئی پوڈ، اسپیکرز، امپورٹڈ دروازوں، کھڑکیوں ،امپورٹڈ لگژری برتنوں، امپورٹڈ باتھ فٹنگز پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 25 فیصد ہو جائے گی۔

ذرائع ایف بی آر کے مطابق امپورٹڈ ٹائلز، سینٹری کے سامان، امپورٹڈ فانوس اور فینسی لائٹس پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 25 ہو جائے گی۔

مہنگائی کہ وجہ ہے کیا ؟

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ 31.5 فیصد افراط زر پٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنا۔ ادھر شرح سود میں اضافے کے ساتھ رہی سہی کسر ڈالر کی قیمت نے نکال دی۔

آمدن میں کمی اور بڑھتی مہنگائی کا اثر صنعتی سرگرمیوں پر بھی پڑا ۔زرعی اور صنعتی پیداوار کے لیے خام مال اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے بھی جلتی مہنگائی پر مزید تیل ڈالا۔

ڈالر 285 روپے کو چھو چکا ۔ بجلی فی یونٹ 17 روپے مہنگی ہوئی جبکہ پٹرولیم کی قیمتوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔گیس اور ایل این جی کی قیمتوں میں 63 اور 72 فیصد اضافہ ہوا۔

بنکوں کی شرح سود 8 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہوگئی جس سے قرضے مزید مہنگے ہوئے۔ صنعتی اور زرعی پیداواری عوامل مہنگائی کا شکار ہوئے ۔

حکومت چولہا جلائے رکھنے کا حل بھی بتائے

مہنگائی سے تنگ آئے شہریوں کا کہنا ہے کہ پھلوں کا تو سوچیں بھی نہ، اشیائے ضروری ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ایسے میں تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔

گھر کا کرایہ دیں، یوٹیلیٹی بلز ادا کریں، بچوں کی فیسیں دینے کے بعد تنخواہ بچتی ہی کہاں ہے؟ حکومت صرف ہم سے قربانی نہ مانگے، ہمیں گھر کا چولہا جلائے رکھنے کا حل بھی بتائے ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp