سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے مبینہ عدالتی قتل کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جب اس مقدمے کی آئندہ سماعت کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا معاملہ آیا تو ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں مدعی احمد رضا قصوری نے عدالت سے استدعا کی کہ انتخابات کے بعد کی تاریخ مقرر کی جائے کیونکہ پیپلز پارٹی اس مقدمے سے سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
احمد رضا قصوری کی اس تجویز پر روسٹرم کے عین پیچھے عدالتی نشستوں پر اپنے والد آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھے بلاول بھٹو زرداری مسکرا دیے، اور عدالت نے احمد رضا قصوری کی تجویز مسترد کر دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہاکہ پہلے ہی یہ مقدمہ کئی سالوں کے بعد سماعت کے لیے مقرر ہوا ہے اور اب اس میں مزید تاخیر نہیں کی جاسکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے تند و تیز سوالات
بھٹو ریفرنس کی سماعت کے دوران ابتدائی طور پر مقدمے کی جزئیات پر بات ہوتی رہی جیسا کہ مقدمے کی شکایت کس نے درج کرائی، شفیع الرحمٰن ٹربیونل رپورٹ کب پبلک کی گئی لیکن پھر جسٹس منصور علی شاہ نے اس مقدمے کے قابلِ سماعت ہونے کے بارے میں اعتراضات اٹھا دیا اور سوال کیا کہ پہلے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم یہ مقدمہ کس قانون کے تحت سن رہے ہیں اور یہ قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں کے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تو سوال یہ ہے کہ کیا اس آرٹیکل کے تحت مقدمے کے فیصلے پر دوسری نظر ثانی کی کوئی گنجائش ہے؟ جب یہ مقدمہ اپیل اور نظر ثانی کے مراحل سے گزر کر حتمی مرحلے تک فیصلہ ہو چکا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے، یہ بہت اہم سوال ہے۔
’کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت کسی عدالتی فیصلے کو دیکھ سکتے ہیں؟ اس بارے میں قانون کیا کہتا ہے اور کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے، پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے‘۔ اس پر عدالت نے فیصلہ کیا کہ ان سوالوں کے جوابات کے لیے عدالتی معاونین مقرر کیے جائیں گے۔
جب احمد رضا قصوری نے رضا ربانی کے بطور عدالتی معاون بننے پر اعتراض اٹھا دیا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے معروف قانون دان اور سینیٹر رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بطور آئینی ماہر آپ اس معاملے میں عدالت کی معاونت کریں جس پر رضا ربانی نے کہاکہ مجھے خوشی ہو گی لیکن اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہ ہو یہ خوشی بعد میں ناخوشی میں بدل جائے، جبکہ احمد رضا قصوری نے اعتراض اٹھایا کہ کوئی ایسا عدالتی معاون مقرر نہ کیا جائے جس کا تعلق سیاسی جماعت کے ساتھ ہو۔
اس پر رضا ربانی کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے اور جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ معاونین عدالتی معاونت کے لیے مقرر کیے جا رہے ہیں۔
میں اس آئین کا فاؤنڈنگ فادر ہوں مجھے عزت دیں
ایک موقع پر احمد رضا قصوری نے کہاکہ میں اس آئین کا فاؤنڈنگ فادر ہوں مجھے عزت دیں، دنیا کے دیگر ممالک میں آئین کے فاؤنڈنگ فادر کو عزت دی جاتی ہے، امریکا میں آئین کے بانیان کو بڑی عزت و تکریم دی جاتی ہے، ابھی یہ مکالمہ جاری تھا کہ ایک رپورٹر کے ساتھ کھڑے ایک اور سینیئر صحافی نے کان میں سرگوشی کی کہ آئین کے بانی بعد میں آئین شکن (مشرف ) کے ساتھ مل گئے۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ وہ 1970 میں ایم این اے تھے جب آج کل کے سیاستدان ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
علی احمد کرد کی استدعا مسترد
ایڈووکیٹ علی احمد کرد بھٹو ریفرنس کی شروعات میں عدالتی معاون مقرر ہوئے تھے اور اس وقت مقرر ہونے والے عدالتی معاونین میں سے زیادہ تر وفات پا چکے ہیں، علی احمد کرد نے عدالت سے استدعا کی فوت ہو جانے والے عدالتی معاونین کے لیے افسوس کا اظہار کیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جذباتی باتیں نہ کریں، اس فورم کو اتنی سنجیدگی سے لیں جتنی سنجیدگی کا یہ متقاضی ہے، یہ کوئی تقاریر کے لیے مخصوص کلب نہیں۔