نواز شریف، لاڈلا یا خوش نصیب؟

بدھ 13 دسمبر 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یوں لگتا ہے ہائی برڈ نظام کی ہر روز ایک اینٹ گر رہی ہے۔ عمران خان کے حوالے سے جو ہوائی قلعے تعمیر کیے گئے تھے وہ ہر روز دھڑام سے زمیں بوس ہو رہے ہیں۔ کسی کی برسوں کی محنت ضائع ہو  رہی ہے، کسی کے انجام کی خبر آ رہی ہے۔ یوں لگتا ہے نواز شریف العزیزیہ کیس میں بری نہیں ہوئے بلکہ ایک پورے عہد کو ظلم، جبر سے نجات نصیب ہوئی ہے۔ ایک عہد دشنام ہے جو دم توڑ رہا ہے، مصائب کی تاریک رات ڈھل رہی ہے اور نفرت کا سمندر پار ہو رہا ہے۔

نواز شریف پہلے ایون فیلڈ پھر فلیگ شپ اور اب العزیزیہ کیس سے بری ہوئے تو پورے قد سے سینہ تان کر کھڑے اس ملک کے نظام انصاف کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ایک ایسا نظام انصاف جس میں ثاقب نثار اور کھوسہ جیسے سانپ پلتے رہے، جس میں فیصلے عدالتوں تک بس پہنچائے جاتے رہے۔ ایک ایسا نظام انصاف جس میں صرف ایک پارٹی کی محبت باقی تھی، ایک ایسا نظام انصاف جس میں تین کا ٹولہ شامل تھا، ایک ایسا نظام انصاف جس میں جج ٹرکوں پر بکتے رہے اور ایک ایسا نظام انصاف جس میں سوائے انصاف کے سب کچھ ہوا۔

مکافات عمل کا نام ہم نے بہت سنا ہے لیکن اس قدر جلد خدا کی لاٹھی کو چلتے نہیں دیکھا۔ یہی ملک تھا، یہی عدالتیں، یہی اسٹیبلشمنٹ اور یہی میڈیا تھا۔ انہی کی مدد سے چند طالع آزماؤں نے نواز شریف کو چور، ڈاکو قرار دیا۔ کرپشن کا ہر کیس ان پر ڈال دیا گیا۔

یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کی کسی ایک فیکٹری میں چار سو انڈین ایجنٹ کام کرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ نواز شریف مذہبی شخصیات کی جان بوجھ کر نہ صرف توہین کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے قوانین میں ترمیم بھی کر رہے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ نواز شریف نے اپنی والدہ کا جسد خاکی جہاز میں سامان کے ساتھ کارگو کر دیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ نواز شریف کی اہلیہ بیمار نہیں بلکہ یہ کہانی نواز شریف نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے گھڑی ہے۔ ہر گالی نواز شریف کی دی گئی، ہر بری بات مریم نواز کے لیے کی گئی، ہر طعنہ شہباز شریف کو دیا گیا، ہر ظلم پارٹی پر توڑا گیا۔ بچت کا ہر رستہ بند کیا گیا۔ ایک پوری نسل کو نواز شریف کے بارے میں مسلسل گمراہ کیا گیا۔

آج جب نواز شریف بری ہوئے ہیں تو لگتا ہے وہ جعلی نظام انصاف زمیں بوس ہوا ہے۔ وہ ثاقب نثار اپنے ڈیم فنڈ کے ساتھ کہیں غرق ہو گیا ہے، وہ آصف کھوسہ اپنی رعونت کے ساتھ دفن ہو گیا ہے، وہ جنرل فیض اپنی دہشت کے ساتھ کہیں دبک گیا ہے، وہ خالق ہائی برڈ نظام جنرل باجوہ کہیں فرار ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ اتنی کم مدت میں ہوا کہ حیرت گم ہے۔ حالات دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئے۔ ابھی تو بے ضمیر اینکروں اور زرخرید تجزیہ کاروں نے یو ٹرن لینے کی ابتدا کی ہے۔ ابھی تو عدالتوں کو نواز شریف کی بے گناہی کا یقین آیا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے یہاں اسی ملک میں عمران خان دندناتے پھرتے تھے۔ جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کے ساتھ تصاویر بڑے فخر سے کھنچواتے تھے۔ ون پیج کو کرامت بتاتے تھے۔ ٹیلی فون ٹیپ کرنے کو سعادت بتاتے تھے۔ گالی دینے کو سب سے بڑی دلیل سمجھتے تھے۔ الزام لگانے کو کارنامہ سمجھتے تھے۔ انتقام کو سیاست کہتے تھے۔ نفرت کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھے۔

پھر کچھ ہی عرصہ بعد عمران خان جیل میں قید ہوگئے۔ کرپشن سے لے کر دہشت گردی تک ہر الزام ان پر لگ چکا ہے۔ ان کے ساتھی فرار کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔ پریس کانفرنس میں تحریک انصاف توبہ توبہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نو مئی کی تلوار تحریک انصاف سے منسلک ہر شخص پر لٹک رہی ہے۔ لوگ خان کے  نظریہ نفرت سے اب پناہ مانگ رہے ہیں۔ اب خان صاحب کے نظریات پر جھومنے والے باقی نہیں رہے۔ اب گالی گلوچ والے کا منہ چومنے والے باقی نہیں رہے۔ اب ہر وقت نفرت اور انتقام کی بات کرنے والے کے فین کہیں گم ہو گئے ہیں۔

کتنے ظالم لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو اب لاڈلا بنایا جا رہا ہے، ریلیف دیا جا رہا ہے۔ ان کو یہ احساس تک نہیں ہے کہ نواز شریف کو ریلیف نہیں بلکہ دیر سے انصاف مل رہا ہے۔ جو بات بہت پہلے ہونی چاہیے تھی، اب ہو رہی ہے۔

اس موقع پر یہ سوال بنتا ہے کہ اگر ایک شخص کے ساتھ بے انصافی ہوئی اور اب اس غلطی کا مداوا ہو رہا ہے تو کیا اسے لاڈلا پن کہیں گے؟ ایک شخص کو پوری ریاست نے انتقام کا نشانہ بنایا اور اب وہ جبر ختم ہو رہا ہے تو کیا اسے ہم لاڈلا پن کہیں گے؟ ایک شخص کو بے جا توہین اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور اگر اب اسی شخص کی تکریم کی جارہی ہے تو کیا یہ لاڈلا پن ہے؟ ایک شخص کے سارے جمہوری حقوق سلب کر لیے گئے اور اب اس کو وہ حقوق واپس کیے جا رہے ہیں تو کیا یہ لاڈلا  پن ہے۔ ایک شخص کی جماعت اور خاندان پر توڑے جانے والے مظالم سے ہاتھ اگر کھینچ لیا گیا ہے تو کیا اسے ہم لاڈلا پن کہیں گے؟

نواز شریف بہت خوش قمست ہیں کہ اسی ملک میں انہیں انصاف بھی مل رہا ہے اور وہ حیات بھی ہیں۔ یہاں اسی نظریہ جمہوریت سے محبت میں لوگ پھانسی پر بھی جھول گئے اور آج بھی ان کی روح عدالتوں میں انصاف کی متلاشی ہے۔ آج بھی نظام انصاف بھٹو کے حوالے سے شرمسار ہے۔ یہ نواز شریف کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں کامیابی کا دن دیکھنا نصیب ہوا ورنہ بہت سے لوگ اسی آرزو میں جان سے چلے گئے۔ یقین نہیں آتا تو پیپلز پارٹی اور اے این پی سے پوچھیں کہ جمہوریت کے جنون میں انہیں کتنے  لاشے اٹھانا پڑے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp