بدھ کے روز سی ٹی ڈی ڈیرہ اسماعیل خان نے دراین کے علاقے میں دہشتگرد حملے کی ایف آئی آر چار نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف درج کرنے لیے مراسلہ ارسال کر دیا۔ جبکہ جہاد مراسلے میں تحریک جہاد پاکستان نامی دہشتگرد تنظیم کا نام لیا گیا ہے جو حملے میں ملوث ہے، اور حکومت پاکستان نے دہشتگردی کے بعد افغان طالبان حکومت سے طالبان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کی صبح 3 بجے کے قریب ڈی آئی خان میں درابن میں سیکیورٹی فورسز کمپاؤنڈ پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ جس میں 23 جوان شہید جبکہ تمام دہشتگرد ہلاک کر دیے گئے۔ تحریک جہاد پاکستان نامی غیر معروف شدت پسند تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
مزید پڑھیں
دہشتگرد تنظیم تحریک جہاد پاکستان
رواں سال فروری میں سوشل میڈیا اور صحافیوں کو میسجز کے ذریعے ایک شدت پسند تنظیم بنانے کے حوالے سے بتایا گیا۔ جس کے کچھ عرصے کے بعد بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائی کی ذمہ داری اس تنظیم نے قبول کرلی۔ ٹی جے پی بلوچستان، میانوالی، سوات اور دیگر علاقوں میں دہشتگردی کی کارروائیوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کرتی آئی ہے۔ سوات میں کبل کے علاقے میں سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں دھماکے ہوئے ٹی جے پی نے فوری طور پر ذمہ داری قبول کی لیکن تحقیقات سے پتہ چلا کہ واقعہ دہشتگردی نہیں بلکہ کمپاؤنڈ میں رکھے گئے بارودی مواد پھٹنے سے پیش آیا تھا۔
کیا تحریک جہاد پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی ہی ہے؟
تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کی جانب سے دہشتگردی کی کارروائیوں کے بعد سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ کیا کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہی نئے فرضی نام سے دوبارہ دہشتگردی کی کارروائیاں کررہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی ہی نئی حکمت عملی کے ساتھ سرگرم ہے۔ اور ٹی جے پی اسی حکمت عملی کا حصہ ظاہر ہوتا ہے۔
طالبان و افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے پشاور کے سینئیر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کا ماننا ہے کہ تحریک جہاد پاکستان ٹی ٹی پی کا دوسرا نام ہے۔ وی نیوز کو تجزیہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ موجودہ حالات اور افغان طالبان حکومت پر دباؤ کے باعث کالعدم ٹی ٹی پی نے نئی حکمت عملی اپنائی ہے۔
’کچھ ماہ پہلے اس تنظیم کا نام منظر عام پر آیا۔ اور قلیل وقت میں اتنی طاقتور ہو گئی ہے جو اتنے بڑے حملے کیے۔‘
رفعت اللہ نے بتایا کہ درابن کا واقعہ بہت بڑا حملہ ہے۔ ماضی میں جی ایچ کیو، پشاور میں پی سی ہوٹل پر اس طرح کے حملے ہوئے تھے جس میں بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جس طرح کا حملہ ہوا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کالعدم ٹی ٹی پی ہے۔
ڈی آئی خان کے سینیئر صحافی عدنان بیٹنی کا خیال ہے چھوٹی تنظیم یا گروپس بھی مقبولیت کے لیے ایسی کارروائیاں کرتی ہیں جو بعد میں کالعدم ٹی ٹی پی سے الحاق کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کالعدم ٹی ٹی پی تحریک جہاد پاکستان سے لاتعلقی کررہی ہے۔ لیکن ایک نوزائیدہ تنظیم کے لیے بڑا حملہ کرنا آسان نہیں ہے۔
جدید اسلحے کا استعمال
دہشتگرد تنظیم ٹی جے پی نے پاکستان کے مخلتف شہروں میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اور ان حملوں میں جدید اسلحے کے استعمال کی نشاندہی ہوئی ہے۔ جبکہ حملے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے۔ سیکیورٹی اداروں کے مطابق لکی مروت اور بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں جدید اسلحے کا استعمال کیا گیا۔ رات کے اندھیرے میں دیکھنے والے عینکیں، تھرمل، سنائپرمشین گن کا استعمال کیا گیا ہے یہ وہ اسلحہ ہے جو امریکن انخلا کے بعد طالبان کے ہاتھ لگ گیا تھا۔
رفعت اللہ کے مطابق جدید اسلحے کے استعمال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نام کے پیچھے بھی ٹی ٹی پی ہی ہے۔ اور پاکستان کے حساس اداروں کو بھی اس کا اندازہ ہے۔ رفعت نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے پاس جدید اسلحہ ہے بلکہ 40 کے لگ بگ چھوٹی تنظمیں بھی شامل ہو گئی ہیں جس سے ٹی ٹی پی مزید مظبوط ہو گئی ہے۔
افغان طالبان پر دباو کے باعث ٹی ٹی پی نئے نام کا استعمال کر رہی ہے
رفعت اللہ اور عدنان اس بات پر متفق ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے باعث افغان طالبان پر دباؤ ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کی حمایت کرتے ہیں۔ رفعت اللہ نے بتایا کہ ٹی ٹی پی ٹاپ قیادت افغانستان میں ہے۔ اور ان کو وہاں اسپیس حاصل ہے جس کا وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان حکومت سے قبل افغانستان میں ان کے لیے حالات سازگار نہیں تھے۔ افغان طالبان حکومت کے بعد ٹی ٹی پی پہلے سے زیادہ مظبوط ہوگئی ہے۔ ان کو جدید اسلحہ ہاتھ لگ گیا ہے اور افغانستان میں رہنے کی آزادی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے ٹی ٹی پی ہے اور پاکستان ٹی ٹی پی کو کنڑول کرنے لیے افغان طالبان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ اور افغان طالبان کے ذریعے مزاکرات بھی کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے افغان طالبان پر دباؤ زیادہ ہے۔
’ٹی ٹی پی گزشتہ 16 سے زائد سالوں سے جہدوجہد کر رہی ہے۔ اور مشکل وقت میں دوسرے نام استعمال کرتی ہے تاکہ دباؤ کو کم کیا جا سکے۔‘
مزید بتایا کہ شدت پسند تنظمیں دوسرے گروپس کو کبھی برداشت نہیں کرتے اور مقابلے میں کوئی آئے خون بہا دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ٹی جے پی اتنے عرصے سے سرگرم ہے اور ٹی ٹی پی کو اس کے بارے میں معلوم نہ ہو۔ یہ کھیل ہے جس سے ادارے واقف ہیں۔
کالعدم ٹی ٹی پی کا موقف
کالعدم تحریک طالبان نے گزشتہ روز ہونے والے واقعے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ تحریک جہاد پاکستان سے بھی ماضی میں لاتعلقی کر چکی ہے۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان عمر خراسانی کے مطابق ٹی جے پی کے حوالے سے انہیں کوئی معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے ٹی ٹی پی کا کوئی تعلق ہے۔