جسٹس شوکت عزیز برطرفی کیس: سابق آرمی چیف اور سابق آئی ایس آئی چیف بطور فریق نامزد

جمعرات 14 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی نے متفرق درخواست کے ذریعے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کو فریق نامزد کر دیا۔ آج ہونے والی سماعت کے دوران شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس تجویز سے اتفاق کیا تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی میں مبینہ طور پر ملوث افراد کو بطور فریق نامزد کیا جائے گا، جن پر شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا ہے۔

مذکورہ بالا 2 افراد کے علاوہ شوکت عزیز صدیقی نے بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے، بریگیڈیئر (ر) فیصل مروت اور بریگیڈیئر (ر) طاہر وفائی کو بھی بطور فریق نامزد کیا ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد انور خان کاسی اور سپریم کورٹ کے سابق رجسٹرار ارباب محمد عارف کو بھی بطور فریق نامزد کیا ہے۔

آج ہونے والی سماعت کا احوال

اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کل صبح تک ملتوی کر دی گئی۔ کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر لائیو دکھائی جارہی تھی۔ اس دوران عدالت نے جنرل فیض حمید کو کیس میں فریق بنانے کا فیصلہ کیا۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔ کیس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

مقدمے کی سماعت کے لیے بینچ مشاورت سے تشکیل دیا گیا ہے، چیف جسٹس

برطرف جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے لیے بینچ کی وضاحت کی، چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں جمہوریت آگئی ہے اور یہاں سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت ہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے لیے بینچ مشاورت سے تشکیل دیا گیا ہے۔

’جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن نے مقدمہ سننے سے انکار کیا اور کہا کہ ہم اس مقدمے کی سماعت نہیں کرنا چاہتے، باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کل ہر کوئی موبائل اٹھا کر کہتا ہے کہ میں صحافی ہوں، موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا۔ صحافی کا بڑا رتبہ ہے۔

’آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے اور جمہوریت مشکل حالات میں ہے، آپکی معاونت درکار رہے گی، جمہوریت چلتی رہے گی آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے۔‘

دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کو موجودہ بینچ پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ نہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ میں نے کسی کو بینچ سے نہیں ہٹایا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے، جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس سنا تھا۔ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔

’ہماری مرضی کا فیصلہ کرو تو تمہارے ریفرنس ختم کروا دینگے‘

وکیل حامد خان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا باعث بنے والی تقریر پڑھ کر سنا دی، تقریر میں کہا گیا آئی ایس آئی نے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو کہا کہ  نوازشریف اور مریم کو الیکشن تک باہر نہیں نے آنے دینا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسفسار کیا کہ اس وقت چیف جسٹس ہائیکورٹ کون تھے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس وقت چیف جسٹس انور کانسی تھے، تقریر میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی نے شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں نہ رکھنے کا کہا تھا۔

’شوکت عزیز صدیقی کو پیشکش کی گئی کہ ہماری مرضی کا فیصلہ کرو تو تمہارے ریفرنس ختم کروا دینگے۔‘

وکیل حامد خان نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی ایک ریفرنس دائر ہوا تھا، شوکت عزیز صدیقی پر ایک ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کا بھی تھا، شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک درخواست گزار جمشید دستی، سی ڈی اے افسر اور وکیل کلثوم خالق تھیں، اور جس ریفرنس پر برطرفی ہوئی وہ سپریم جوڈیشل کونسل نے سوموٹو لیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو تقریر کا کیسے معلوم ہوا؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو نوٹ لکھا تھا۔

کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں، چیف جسٹس

قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے فی البدیہہ تقریر کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے دوبارہ پوچھا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟ حامد خان نے جواب دیا کہ جنرل فیض حمید ایک بریگیڈیئر کیساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا، فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شاید میں غلط ہوں ادارے برے نہیں ہوتے، لوگ برے ہوتے ہیں، ہم شخصیات کو برا نہیں کہتے، اداروں کو برا بھلا بولتے ہیں۔ اداروں کو لوگ چلاتے ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ ہمیں اسوقت موقع نہیں دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو آپ کے پاس موقع بھی ہے۔

حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے کا جوڈیشل کونسل نے موقع نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو آپ کے پاس موقع ہے اب کیوں نہیں فریق بنا رہے؟ کسی کی پیٹھ پیچھے الزام نہیں لگانے دینگے، اس اعتبار سے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ درست ہے۔

حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے پر اعتراض نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ فریق بنا کر ہم پر احسان نہ کریں، اداروں پر الزام نہیں لگانے دینگے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے الزام ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر لگایا تھا، جسٹس انور کانسی کو بھی فریق نہیں بنایا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا فیض حمید کو کسی اور درخواست گزار نے فریق بنایا ہے؟ وکیل بار کونسل نے کہا کہ فیض حمید کو نہیں آئی ایس آئی کو فریق بنایا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انور کانسی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کرایا تھا، حامد خان نے جواب دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب جمع کروایا تو سماعت کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اوپن کورٹ میں ریفرنسز کی سماعت کا حکم دیا تھا۔

’عدالت نے کہا تھا جو جج چاہے اس کیخلاف کارروائی کھلی عدالت میں ہوگی۔‘

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے صرف ابتدائی سماعت کی تھی باضابطہ انکوائری ابھی ہونی تھی، جس پر جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقریر کا متن بیان حلفی پر کونسل کو کیوں نہیں دیا؟

چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں انہیں سنے بغیر نکالا گیا، آپ بھی فیض حمید وغیرہ کو بغیر موقف پیش کیے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج کبھی کسی کو سنے بغیر اس کیخلاف فیصلہ نہیں کیا ہوگا۔

’ممکن ہے جن پر الزامات لگ رہے وہ شوکت عزیز صدیقی کے الزام کی تصدیق کر دیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کئی لوگ بعد میں تسلیم کر لیتے ہیں کہ دباؤ میں کام کیا تھا۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کوئی جج کرپٹ ہو تو الزام ضلعی عدلیہ پر نہیں اس جج کےخلاف لگے گا۔

حامد خان اور بار کونسلز نے جنرل (ر) فیض حمید کو فریق بنانے کے درخواست دینے کی استدعا کر دی۔

 چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سردیوں کی چھٹیاں آ رہی ہیں، آئندہ سماعت پر صرف فریقین کو نوٹس ہی جاری ہونگے، حامد خان صاحب آپ ہچکچا رہے ہیں اس لیے سماعت جنوری میں رکھ لیتے ہیں۔ کس کو فریق بنانا ہے یہ ہمارا کام نہیں، جو فریق نہ ہو اس پر الزام نہیں لگانے دینگے۔

’فریق نہیں بنانا تو شخصیات کے نام نکال کر نئی درخواست دائر کریں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس پر بھی معاونت کریں کہ رجسٹرار کسی جج کی خلاف  کونسل کو خط لکھ سکتا ہے یا نہیں۔

سماعت کے بعد عدالت نے شوکت عزیز صدیقی کو کیس میں مزید فریقین بنانے کی اجازت دے دی اور سماعت کل صبح 10:30 بجے تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018ء کو راولپنڈی بار سے خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔ جس کے بعد سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو11 اکتوبر 2018ء کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp