سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو جواب کے لیے مہلت دیدی، اگلی کارروائی 11 جنوری تک ملتوی

جمعرات 14 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف اوپن کورٹ میں سماعت ہوئی جس کے دوران کونسل نے جسٹس نقوی کو شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے لیے وقت دینے کا فیصلہ کرلیا۔

چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے فیصلہ سنایا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو تفصیلی جواب دینے کے لیے وقت دے دیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے شکایت کنندگان سے گواہان کی فہرست بھی مانگ لی۔

قبل ازیں جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف کارروائی کے معاملے پر جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا کہ شوکت عزیز صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کی کھلی سماعت کا حق تسلیم کیا، میری درخواست ہے میرے خلاف بھی جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے لیے کھلی سماعت کی جائے۔

اوپن سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ کونسل کو بار بار درخواستیں دی گئیں تاہم جواب دینے کے لیے معلومات درکار ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کونسل نے کسی خط کا جواب نہیں دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتی اور نہ ہی کونسل کوجواب دینے کے لیے کوئی شرائط عائد کی جاسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل الگ آئینی ادارہ ہے، آپ نے کہا اوپن کارروائی ہو ہم نے کر دی

اب یہ نہ بتائیں کہ آپ نے متعدد درخواستیں دائر کیں بلکہ بتائیں کون سی دستاویز چاہیے، ہم ابھی دیتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ کے لکھے خطوط سپریم جوڈیشل کونسل کے ریکارڈ کا حصہ نہیں تو کیسے دیکھیں؟

چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے مکالمہ

چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہماری بات ذرا غور سے سن لیں یہ نہ ہو کہ آپ کو پھر ہم نہ سنیں۔

چیئرمین جوڈیشل کونسل نے کہا کہ آپ کا خط ہم تک پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا پر آ جاتا ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر ہر ایک چیز سوشل میڈیا پر چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب تو ہم محتاط ہوگئے ہیں کہ باقی ریکارڈ بھی جسٹس نقوی کو دیا تو کہیں وہ بھی سوشل میڈیا پر نہ آ جائے۔

چیف جسٹس  نے کہا کہ آپ نے ہماری سیکریٹری پر الزام لگایا کہ وہاں سے خط لیک ہوتا ہے لیکن جب ہم نے سیکریٹری سے جب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس میڈیا کے نمائندے کو جانتی تک نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم فیصلہ کریں گے کہ آپ کو ریکارڈ کی کاپی دینی ہے یا نہیں، آپ کو سارا ریکارڈ ابھی دکھا دیتے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے ریکارڈ دکھا کر زبردستی آپ مرضی کی باتیں سننا چاہتے ہیں اور

لگتا ہے جوڈیشل کونسل پہلے ہی اپنا فیصلہ کر چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری درخواستیں کل سماعت کے لیے مقرر ہیں لہٰذا ہمیں آئینی حق دیا جائے۔

اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے روسٹرم پر آ کر بات کرنے کی کوشش کی  جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دونوں میں سے جو چاہے بات کر لے ہمیں مسئلہ نہیں۔ تاہم خواجہ حارث نے اپنے موکل جسٹس مظاہر نقوی کو بات کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ جسٹس نقوی کی پیٹھ پیچھے کوئی کارروئی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب میرے خلاف ریفرنس آیا تھا تب تو کونسل نے مجھے ایک بار بھی نہیں بلایا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو میرے ساتھ ہوا نہیں چاہتا کسی اور کے ساتھ بھی ہو۔

بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی سے یکم جنوری 2024 تک جواب مانگ لیا اور اس کے ہمراہ گواہان کی فہرست بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل پراسیکیوٹر نہیں ہوسکتی، گواہ کونسل کو نہیں اٹارنی جنرل کو بطور پراسیکیوٹر بلانے ہیں، شکایت کنندگان کا سپریم جوڈیشل کونسل رولز میں کوئی تصور نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کونسل کو صرف معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔

کونسل نے شکایت کنندگان کے گواہان کی فہرست اٹارنی جنرل کو دے دی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فہرست میں شاید کچھ گواہان کا اضافہ ہو۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی 11 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp