سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی کیخلاف منی لانڈرنگ مقدمہ کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مقدمہ ختم کیا، تاہم عدالت نے ایف آئی اے سے مزید ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مونس الٰہی کی منی لانڈرنگ مقدمہ کالعدم قرار دینے کےخلاف اپیل پر سماعت کی ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ مونس الٰہی سمیت 11 ملزمان پرجعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بہت تفصیلی ہے ، نیب سمیت کئی ادارے ان اکاؤنٹس کی تحقیقات کر چکے ہیں ۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ ایک ہی معاملے کی بار بار تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ نیب آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کر رہا تھا جس پر جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ جن اکاؤنٹس کی تحقیقات کر رہے ہیں وہ کب کے ہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کچھ اکاؤنٹس 2007 میں کھولے گئے جبکہ کچھ 2010 سے 2014 تک بنائے گئے تھے۔
جسٹس سردار طارق نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے 2020 میں تحقیقات ختم کیں احتساب عدالت نے اس کی توثیق کی ، کیسے ممکن ہے نیب نے اس معاملے کا جائزہ ہی نہ لیا ہو۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل بولے؛ شوگر کمیشن کی رپورٹ سے منی لانڈرنگ کا معاملہ سامنے آیا۔
جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ شوگر کمیشن تو چینی کی قیمت کے حوالے سے تھا، جس رحیم یار خان مل کا کیس بنا رہے ہیں اسکی تو کمیشن نے تحقیقات کی ہی نہیں، ابھی تک ایف آئی اے واضح نہیں کر سکا کہ کہانی شروع کہاں سے ہوئی۔
جسٹس سردار طارق نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپکے بقول مقدمہ کی بنیاد ہی 2007 کا اکاؤنٹ ہے جبکہ اینٹی منی لانڈرنگ قانون 2010 میں بنا، اطلاق ماضی سے کیسے ہوسکتا ہے، نیب ریفرنس کی تفصیلات اور ریکارڈ پیش کریں پھر فیصلہ کرینگے مونس الٰہی کو نوٹس جاری کرنا ہے یا نہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مقدمہ ختم کیا جس پر جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو مقدمہ پہلی سماعت پر ہی ختم کرنے کا آئینی اختیار حاصل ہے ۔
کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔