وقت کی خوبی کہیے یا خامی، یہ رکتا نہیں ہے۔۔۔ چلتا رہتا ہے۔ لیکن پیدائشِ عیسیٰ سے کوئی 45 سال پہلے جولیئس سیزر نے وقت کو 12 ایسے مہینوں میں بانٹ دیا جو ہر سال آ جاتے ہیں۔ اسی موسم میں۔۔۔ انہی تاریخوں کے ساتھ۔۔۔ اور ان تاریخوں کے ساتھ منسلک اچھی بری یادوں کے ساتھ۔
کہتے ہیں کہ یادوں کی تازگی ہمیشہ قائم نہیں رہتی۔ وقت کی گرد انہیں دھندلا کر دیتی ہے اور برسوں بعد۔۔۔ خوشیوں کی یاد میں خوشی وہ رہتی ہے۔۔۔ نہ ہی دکھ کی یاد میں۔۔۔ دکھ کی شدت ویسی رہتی ہے۔ غلط کہتے ہیں۔۔۔ کیفیتِ مسرت چاہے وہ نہ رہتی ہو۔۔۔ زخموں کی کسک ویسی ہی رہتی ہے۔ دکھ ۔۔۔ ذہن کے خلیوں میں حنوط شدہ لاشوں کی طرح ہوتے ہیں اور ان تاریخوں میں کہ جب انکا جنم ہوا تھا دوبارہ سانس لینے لگتے ہیں۔۔۔ زخم کریدنے لگتے ہیں۔۔۔ انہیں بھرنے نہیں دیتے۔۔۔ اور دسمبر کے مہینے کے گھاؤ تو ویسے بھی سرد خانے میں لگے رہتے ہیں۔۔۔ پگھلتے ہیں نہ بھرتے ہیں۔
اکتوبر نومبر کے پت جھڑ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے یہ مہینہ قریب آنے لگتا ہے۔۔۔ سارے میں۔۔۔ اداسی کی فضا بھرنے لگتی ہے۔۔۔ ماضی کے آتش دانوں سے اٹھتا دھواں۔۔۔ آنکھوں کو کھارا کر دیتا ہے۔۔۔ اور ہم ایک دوسرے سے نظریں چرائے بات تک کرنے سے بھاگتے پھرتے ہیں۔
مجھے یاد ہے۔۔۔ بچپن میں۔۔۔ کسی جماعت کی اردو کی کتاب میں ایک کہانی ہوا کرتی تھی۔۔۔ سفر نامہ تھا شاید۔۔۔ ایک لڑکی کو اس کی ایک قلمی دوست چٹا گانگ آنے کی دعوت دیتی ہے۔۔۔ یا شاید جانے کی دعوت دیتی ہے۔ وہ لڑکی جس کا نام شاید صالحہ تھا۔۔۔ وہ اپنے باپ سے بات کرتی ہے کہ اسے چٹا گانگ جانا ہے۔ اس کا باپ بھی بہت خوش ہوتا ہے اور اسے جہاز میں بٹھاتا ہے۔۔۔ اور یوں صالحہ بنگال کی پر اسرار اور رُمان پرور فضاؤں میں جا پہنچتی ہے۔ گویا ایلِس۔۔۔ ونڈرلینڈ کی سیر کو نکل کھڑی ہوتی ہے اور پھر مصنف نے صالحہ کے ذریعے چٹا گانگ کے ساحلوں کا، جنگلوں، دریاؤں، ندی نالوں، آبشاروں اور پہاڑوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ سب کچھ ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا۔ میرا دل بھی کیا کہ میں بھی چٹا گانگ کی سیر کو جاؤں۔ ابا کےپاس جا پہنچا۔۔۔ کہا چٹا گانگ جانا ہے۔ میری بات سن کر وہ ایک ٹُک میری طرف دیکھا کئے۔۔۔ ان کی آنکھوں سے چٹا گانگ کا کوئی ایسا چشمہ جاری ہو گیا کہ جو سوکھنے کے قریب تھا۔۔۔ لیکن سوکھ نہیں رہا تھا۔ مجھے گلے سے لگا۔۔۔ نِما نِما بُسکنے لگے۔ بولے۔۔۔ یہ سبق ابھی نکالا نہیں اِنہوں نے اردو کی کتاب سے۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب چٹا گانگ جانا نا ممکن ہوچکا تھا۔ شری منگل اور سلہٹ کے چائے کے باغات ہمارے نہیں رہے تھے۔ سُندر بَن کے جنگلات ہمارے نہیں رہے تھے۔ رونا لیلیٰ اور رحمٰن ہمارے نہیں رہے تھے۔ وہ سب ہمارے نہیں رہے تھے۔۔۔ اور اس بات کو برسوں بیت گئے تھے۔۔۔ لیکن ہمارا نصاب نہیں بدلا تھا۔۔۔ اور تب مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ میں چٹا گانگ کیوں نہیں جا سکتا تھا۔۔۔ اور یہ کہ۔۔۔ ابا تب روئے کیوں تھے۔۔۔ اور اس بات کو بھی گزرے جب کئی برس اور گزر گئے۔۔۔ تب مجھے پتا چل چکا تھا کہ میں چٹا گانگ کیوں نہیں جا سکتا تھا۔۔۔ اور ابا روئے کیوں تھے۔۔۔ اور دسمبر اتنا اداس کیوں ہوتا ہے۔ تب مجھے یہ بھی پتا چلا تھا کہ دسمبر میں ہم کھل کر نہیں رو سکتے تھے۔ اس کے لئے کسی کونے کھدرے میں جا چھپنا ہوتا تھا۔۔۔ کسی دِوار کے ساتھ لگ کر آنسو بہانا ہوتے تھے۔۔۔ کسی بن میں جا بسرام کرنا ہوتا تھا۔۔۔ راتوں کی تاریکی میں چھپ کر۔۔۔ ایک دوسرے کے گلے لگ کر۔۔۔ ایک دوسرے کے کندھے بھگونا ہوتے تھے۔۔۔ اور 16 دسمبر کو تو بس چپ کا روزہ رکھنا ہوتا تھا۔۔۔ آنکھیں پتھر اور سینہ چٹان کرنا ہوتا تھا۔
پھر اس بات کو گزرے بھی کئی برس گزر گئے۔۔۔ اور میں ریڈیو پاکستان میں نوکر ہو گیا بطور پروڈیوسر۔ وہاں غازی مونگیری نام کے ایک شخص سے ملاقات ہوگئی۔ اس کا تعلق اس جگہ سے تھا۔۔۔ جس کا تعلق اب ہم سے کوئی نہیں تھا۔ جب ڈھاکہ الگ ہوا تب اس کی تعیناتی بطور اناؤنسر لاہور میں تھی۔ سانولا رنگ۔۔۔ منہ میں پان۔۔۔ ایک بازو اور اس بازو کے نیچے کی ٹانگ اور اس طرف کا جبڑہ فالج ذدہ تھے۔۔۔ اس بازو کو سینے سے لگا کر رکھتا تھا۔۔۔ اور چلتے ہوئے فالج ذدہ ٹانگ کو ذرا دبا کر چلتا تھا۔۔۔ پان کی گلوری اس طرف ہوتی جس طرف کا جبڑہ چھالیہ چبا سکتا تھا۔۔۔ اور اس کی زبان۔۔۔ اور اس کا لہجہ۔۔۔ اور اسکی باتیں۔۔۔۔ گویا چٹا گانگ کے گھنے جنگلوں کے بیچوں بیچ بہنے والا کوئی میٹھا جھرنا ہو۔ میں اس کے پاس بیٹھ۔۔۔ اس کے اس دیس کی باتیں کرتا جو اس کا نہیں رہا تھا۔ باتیں کرتے وہ کہیں دور پہنچ جاتا۔ ایسے لگتا جیسے اس کی آواز کسی بند کنویں سے آ رہی ہو۔ اس کی دونوں آنکھوں سے پانی چلنے لگتا۔ ایک آنکھ جو فالج ذدہ تھی۔ اس میں سے بھی اور جو ٹھیک تھی اس میں سے بھی۔ اپنے کندھے پر رکھے۔۔۔ گردن کے دونوں جانب لٹکتے پرنے سے اپنی آنکھیں صاف کرتا۔۔۔ اور یہ کہتا اٹھ جاتا کہ صاحب پروگرام کا وقت ہوگیا ہے۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ وقت اس کے پروگرام کا نہیں ہوتا تھا۔۔۔ ہو نہ ہو کسی کونے میں۔۔۔ کسی دیوار کے کندھے پر سر رکھ کر رونا ہوتا ہوگا۔
دسمبر کا زخم وہ زخم ہے جس پر پھاہا نہیں رکھا گیا۔۔۔ اس کی صفائی نہیں کی گئی۔۔۔ اس کے ٹانکے نہیں لگائے گئے۔۔۔ اس پر سپرٹ لگا کر اسے دھویا نہیں گیا۔۔۔ اس کی مرہم پٹی نہیں کی گئی۔۔۔ اور اسے اوپر سے ڈھک کے۔۔۔ چھپا کے۔۔۔ سڑنے کو۔۔۔ گلنے کو چھوڑ دیا گیا۔ اسی لئے اس زخم کی تازگی مرجھا نہیں رہی۔ جولیئس سیزر نے حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے کوئی 45 برس قبل۔۔۔ وقت کو تاریخ میں تو باندھ دیا تھا کہ شاید آنے والی نسلیں تاریخ کے اوراق میں درج تاریخوں سے منسلک اچھے برے سے کوئی سبق سیکھ لیں۔ لیکن افسوس تاریخ سے سبق سیکھنے کو کوئی تیار نہیں۔۔۔ نہ فرد۔۔۔ نہ معاشرہ۔۔۔ اور ہمارے ہاں کہ جہاں کا دسمبر دردناک واقعات سے لہو لہو ہے۔۔۔ ہم تو بالکل بھی گزرے کل سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔۔۔ فیصلہ کیجیے کہ جس سے جو ہوا۔۔۔ اس کا تعین دیانت داری سے کرنا ہوگا۔۔۔ اور کوشش کرنا ہوگی کی کہ آئندہ وہ۔۔۔ یا ویسا ہی کچھ کبھی نہ ہو۔۔۔ اور نیرہ نور کی آواز میں فیض کا وہی کہا سنیے جو میں سن رہا ہوں۔۔۔ اور کسی کونے میں۔۔۔ کسی دِوار کے کندھے کا آسرا لیجیے۔۔۔۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔۔۔
کب نظر میں آئے گی۔۔۔ بے داغ سبزے کی بہار۔۔۔
۔۔۔۔۔ کتنی۔۔۔ برساتوں کے بعد۔۔۔
دل تو چاہا پر۔۔۔ شکستِ دل نے۔۔۔ مہلت ہی نہ دی۔۔۔
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے۔۔۔ مناجاتوں کے بعد۔۔۔
ان سے جو کہنے گئے تھے۔۔۔۔
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات۔۔۔ سب باتوں کے بعد۔۔۔