سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی کی منفرد تصنیف ’ایکسپریشنز‘ نے کوزے میں دریا بند کردیا

جمعہ 15 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی کی منفرد تصنیف ’ایکسپریشنز‘ کی رونمائی کی تقریب جمعہ کو یہاں انسٹیویٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس ) میں منعقد ہوئی جس میں قیام پاکستان سے دنیا کے ساتھ پاکستان کے روابط کا تاریخی جائزہ پیش کیا گیا۔

افراسیاب مہدی نے واشنگٹن ڈی سی، نئی دہلی، بیجنگ اور ویانا میں پاکستانی مشنز میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ میں ہائی کمشنر کے طور پر بھی کام کیا۔ انگریزی میں لکھی گئی اس غیر معمولی کتاب میں سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک 140 سے زائد پاکستانی سفارت کاروں کی لکھی گئیں 400 سے زائد تصانیف کے بارے میں معلومات مرتب کی گئی ہیں۔ حال ہی میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے شائع کی گئی۔

یہ کتاب پاکستانی سفارتکاروں کی اشاعتوں کی تفصیلات فراہم کرتی ہے جس میں ان کی تصانیف کا عنوان، مصنف کا نام اور ان کی بیرون ملک تعیناتی کے مقام اور اشاعت کے سال بشمول ناشر کی تفصیلات درج ہیں۔ کتاب میں اہم پاکستانی سفارت کاروں پر تحریریں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق تقاریر شامل ہیں۔

کتاب کے محرکات و افادیت

تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی نے اپنے تاثرات میں کتاب کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تصنیف ان اسکالرز، تھنک ٹینکس، لائبریریوں اور سفارت کاروں کے لیے مفید ہو گی جو نہ صرف دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بلکہ اس قدیم سرزمین کی تاریخ، ثقافت اور لوگوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علم کا حصول اور اسے کتابی شکل دینے کے کٹھن کام کو سرانجام دینے کا محرک قرآن پاک اوررسول اللہ ﷺکی یہ تعلیمات ہیں کہ علم کی جستجو نہ صرف روشنی کا ذریعہ ہے بلکہ تہذیبوں کے تحفظ کے لیے ایک ہتھیار بھی ہے۔

افراسیاب مہدی ہاشمی نے اندلس کے مشہور مسلمان فلسفی اور صوفی ابن عربی کی کتاب ’الفتوحات المکیہ‘ کا حوالہ دیا جس کے 14000 سے 24000 صفحات بتائے گئے لیکن محفوظ نہ رہ سکے۔ تاہم مختلف حوالہ جات تھے لیکن باب 366 میں سے ایک کا تعلق مستقبل خاص طور پر موجودہ دور بین الاقوامی تعلقات اور سیاست کے حوالے سے ہے ۔انہوں نے کہا کہ نئی دہلی، واشنگٹن، ویانا اور ویلنگٹن میں اپنی پوسٹنگ کے دوران میں لائبریریوں میں جایا کرتا تھا۔

’سنہ 1947 سے اب تک 147 سفارت کاروں نے 400 سے زائد کتابیں لکھیں‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے اس فہرست کو مرتب کرنا شروع کیا جس کی رہنمائی میرے رفقا کار اور بزرگوں نے اس کتاب کو لکھنے کی کوشش میں کی، اس کوشش کے دوران مقامی لائبریریوں اور اسٹاف کالج کوئٹہ کا بھی دورہ کیا، میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ سنہ 1947 سے اب تک 147 سفارت کاروں نے 400 سے زائد کتابیں لکھیں، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ نے 15سے 20 کتابیں لکھیں، چین کے لیے پہلے ناظم الامورنے 15 کتابیں لکھیں، ممتاز سفیر جمشید مارکر جنہوں نے متعدد ممالک میں سفارتی خدمات سرانجام دیں ، نےبھی کتابیں لکھیں‘۔

ایک سفیر نے اپنی کتاب کے تذکرے سے گریز کی درخواست کی

افراسیاب مہدی ہاشمی نے نشاندہی کی کہ اس کتاب کی تیاری کے دوران ایک سفارت کار نے اپنی کتاب کا تذکرہ کرنے سے گریز کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ وہ کسی قسم کی داد و تحسین حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہر اس سفارت کار کی کتاب پر غور کیا جس کی سفارتی حیثیت تھی۔ تاہم کتب کی یہ فہرست نامکمل ہے اور میری ایک ابتدائی کوشش ہے جسے دوسروں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتابیں آپ کو جینے کا اعتماد دیتی ہیں کیونکہ ان میں جینے کاتصورہوتا ہے۔ سنہ 1844 میں انگریزوں نے کیپیٹل ہل میں کانگریس کی لائبریری کو جلا دیا تھا ۔ اسکندریہ میں اس لائبریری کو رومیوں نے تباہ کر دیا تھا جوبنیادی طور پر غلط معلومات اور استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے غلطی سے تیسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ منسلک تھی ۔

ان کا کہنا تھا کہ استاد عیسیٰ اور احمد علی لاہوری تاج محل کے حقیقی معمار کے طور پر جانے جاتے تھے اور اس سے زیادہ شاندار کوئی اسٹرکچر نہیں ہے تاہم ان کی مادر علمی یا تعلیمی اداروں سے متعلق کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم مغلوب ہوتی ہے اور فاتح امن و امان قائم رکھتا ہے تو وہ ایک کام کرتا ہے جو یہ کہ وہ سب سے پہلے کتب کو تباہ کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جوزف اسٹالن نے روس اور اس کی سرزمین سے متعلق تمام انسائیکلوپیڈیا کی کتابوں سےچیچنیا ایجسٹیا کا نام ترک کر دیا کیونکہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران مزاحمت کی تھی۔

’قائد اعظم، علامہ اقبال اور سر سید کی کتابیں چٹاگانگ کی لائبریریوں سے نکال دی گئی تھیں‘

سابق سفیر نے کہا کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان پر تمام کتابوں کو 18 نومبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے بعد چٹاگانگ کی لائبریریوں سے نکال دیا گیا تاکہ محمد علی جناح کے ساتھ بنگالیوں کی تاریخ کے تمام رشتوں کو ختم کیا جا سکے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ تاریخ بدل دی گئی ہے اور قوم کو عثمانیہ اور دیگرتمام عظیم مسلم سلطنتوں کو یاد رکھنا ہو گا ورنہ آپ تاریخ سے مٹ جائیں گے۔ افراسیاب مہدی ہاشمی نے کہا کہ ہمیں سوچنا، منعکس کرنااور لکھنا ہے اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو وہ (غیر ملکی) ہمارے لیے لکھیں گے اور ہم ان کی وہ کتابیں پڑھیں گے جو ہمارے خلاف لکھی گئی ہونگی۔

قبل ازیں اپنے خطبہ استقبالیہ میں صدر آئی آر ایس سفیر ندیم ریاض، سفیر نغمانہ ہاشمی، اور ان کے علاوہ منیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاؤنڈیشن ڈاکٹر راجہ مظہر حمید نے بھی اپنے خطاب کیا اور قومی اور بین الاقوامی قارئین کے لیے مذکورہ کتاب کی اہمیت پر زور دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp