گیس کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

ہفتہ 16 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیئرمین آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) مسرور خان کی جانب سے ملک میں گیس مزید مہنگی کرنے کی گزارش کی گئی ہے، سوئی ناردرن نے گیس نرخوں میں دوبارہ 131 فیصد اضافہ مانگ لیا ہے۔ اس سے قبل بھی یکم نومبر کو قیمتوں میں اضافے کے ساتھ گیس گھریلو صارفین کے لیے 172 فیصد سے زائد مہنگی کی گئی تھی۔

یاد رہے اس سے قبل جو اضافہ کیا گیا تھا اس میں ماہانہ 25 سے 90 مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے قیمت نہیں بڑھائی گئی تھی، لیکن پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فکسڈ چارجز 10 سے بڑھا کر 400 روپے کردیے گئے تھے۔ اسی طرح نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے گیس قیمت میں 172 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا۔

اس اضافے کے بعد ماہانہ 25، 60، 100، 150، 200، 300 اور 400 مکعب میٹر گیس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بالترتیب قیمت 200، 300، 400، 600، 800، 1100 اور 2000 سے بڑھا کر 300، 600، 1000، 1200، 1600، 3000 اور 3500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردی گئی جبکہ ماہانہ 400 مکعب میٹر سے زائد استعمال پر قیمت 3100 سے بڑھا کر 4000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی۔ تندوروں کے لیے 600 روپے اورپلانٹس کے لیے 1050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت برقرار رکھی گئی ہے۔

گیس کی قیمت ایک بار پھر کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟

چیئرمین اوگرا مسرور خان نے ملک میں گیس مزید مہنگی ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ذخائر کم پڑ گئے ہیں باہر سے مہنگی گیس منگوانی پڑتی ہے، امپورٹ کردہ آر ایل این جی کئی گنا مہنگی ہے اب صارفین کو گیس بچت کی طرف جانا ہو گا، میں نے بھی اپنے گھر کا گیس بل بچت سے کنٹرول کیا ہے۔

مسرور خان نے گیس ٹیرف بڑھانے کے معاملے کی سماعت کی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا، جہاں  سوئی ناردرن نے گیس نرخوں میں دوبارہ 131 فیصد اضافہ مانگ لیا۔ چیئرمین اوگرا نے کہاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کا مؤقف سن لیا گیا ہے، اگلی سماعت پشاور میں ہوگی جس کے بعد سفارشات حکومت کو بھجوا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گیس دنیا بھر میں مہنگی ہے یہاں بھی مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے۔

گیس کی قیمت میں پہلے کیوں اضافہ کیا گیا تھا؟

31 اکتوبر کو گیس کی قیمت بڑھانے کے حوالے سے نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے نگراں وزیر توانائی محمد علی نے کہا کہ پچھلے 10 سالوں سے پاکستان میں گیس ڈیمانڈ سے کم پیدا کی جا رہی ہے اور اضافی گیس درآمد کرنی پڑتی ہے۔

انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج جو ہم تیل اور گیس نکال رہے ہیں وہ 10 سال قبل نکالے جانے والے تیل اور گیس کے مقابلے میں ہزار ارب روپے سے کم ہے، تو مانگ کو پورا کرنے کے لیے جو تیل اور گیس ہم درآمد کرتے ہیں وہ مہنگے ہوتے ہیں۔ درآمدی گیس کی قیمت مقامی کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام تک پہنچانے کے بعد گیس کی قیمت اور وصولی میں 210 ارب روپے کا فرق آتا ہے، لہذا اگر یہ قیمت نہ بڑھاتے تو 400 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا۔

وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے 10 سال قبل اور رواں برس کے دوران سالانہ بنیادوں پر پاکستان میں گیس فراہم کرنے والے اداروں کے نقصانات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 10 سال قبل سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کا مشترکہ نقصان 18 ارب سالانہ ہوتا تھا، جو کہ اب بڑھ کر 879 ارب روپے سالانہ پر پہنچ چکا ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پورے ملک میں پیٹرولیم سیکٹر میں سرکولر ڈیٹ یا گردشی قرضہ رک گیا ہے اور اب نہیں بڑھے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp