وہ کراچی کے ایک شادی والے گھر کی رونقوں سے یکسر بے نیاز، سر جھکائے انہماک سے مہندی لگانے میں مگن تھی۔ اس کا ہاتھ کُون مہندی سے پھول پتیاں اور ڈیزائن بنانے میں ماہر معلوم ہوتا تھا۔ عمر کوئی 10 سے 12کے درمیان، سانولے رنگ پر تیکھے نین، نقش والی اس بچی کے سر پر بندھے اسکارف نے اس کے بالوں کو باہر آنے سے سختی سے روک رکھا ہے۔
باری باری سب اپنے ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگوا رہے تھے، مستقل سر جھکائے ہوئے اس کی کمر یقیناً درد سے دہری ہوئی جارہی ہوگی۔ مہندی لگواتی ایک عورت نے دوسری کو آواز دی۔
آجاؤ تم بھی لگوا لو مہندی اب۔پہلی نے دوسری سے کہا۔
نہیں میں کہاں لگاتی ہوں۔ برسوں ہوئے مہندی لگانا چھوڑ دی۔ دوسری نے جواب دیا۔
ارے لگوا لو آج۔ اس بچی کی بھی کمائی ہو جائے گی۔ پہلی نے زور دیا۔
دوسری نے نظر بھر کر بچی کو دیکھا اور کچھ سوچتے ہوئے مہندی لگوانے بیٹھ گئی۔ عورت کی نظریں بچی کا طواف کر رہی تھیں۔ اس بچی کا قصور یہی ہے نا کہ وہ غریب ہے، اس لیے اس کے ہاتھ مہندی لگوانے والوں کی فہرست میں نہیں بلکہ دوسروں کے ہاتھوں کو سجانے کے لیے ہیں۔
کیا ڈیزائن بناؤں؟ بچی نے معصومیت سے پوچھا۔ اس کے چہرے پر تلخ حالات کی عکاسی نمایاں تھی۔
گول چاند بنا دو بس۔ عورت بے پروائی سے بولی، جیسے اصل مقصد مہندی لگوانا ہی نہ ہو۔
کتنے سال کی ہو بیٹا؟ عورت نے بچی سے بات چیت کا آغاز کیا۔
11 سال۔۔۔ بچی نے سر جھکائے ہوئے ہی مختصر جواب دیا۔
پڑھتی ہو؟
جی۔
کون سی کلاس میں؟
بچی نے ویران آنکھوں سے عورت کو دیکھتے ہوئے کہا اسکول نہیں، مدرسے جاتی ہوں قرآن پڑھنے۔
اسکول کیوں نہیں جاتی؟
پیسے نہیں ہیں۔
پہلی عورت دور سے بچی اور دوسری عورت کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر بولی۔
ارے اس کے باپ کے پیٹ میں رسولی ہوگئی تھی۔ آپریشن کے بعد انفیکشن پھیل گیا۔ پانچ بچے پیدا کرکے خود تو بستر پر پڑ گیا ہے، بیچاری اس کی ماں گھروں میں جھاڑو پونچھا کر کے بچے پال رہی ہے۔
کہاں رہتی ہو؟ دوسری عورت بچی سے دوبارہ مخاطب ہوئی۔
سیکیورٹی پریس کے پیچھے خالی پلاٹ ہیں وہیں اماں نے چھونپڑی ڈال لی ہے۔ بچی نے سپاٹ لہجے میں بتایا۔
اور بہن بھائی کتنے بڑے ہیں؟ عورت نے پوچھا
مجھے سے بڑا بھائی ہے وہ نشہ کرتا ہے اور باقی 3 مجھ سے چھوٹے ہیں، 2 بھائی ایک بہن۔ بچی عورت کے ہاتھ پر نفاست سے چودھویں کا چاند بنا کر اب اس کی انگلیوں پر پھول پتیاں بنا رہی تھی۔
رات کے 10 بجے کا وقت ہے۔ اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں زناٹے بھرتی گاڑیاں سگنل کے لال ہوتے ہی ساکت آ کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ سگنل تقریباً ایک منٹ تک گاڑیوں کو حرکت کرنے سے روکے رکھتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ یہاں پھول بیچتے، گاڑی کا ونڈ اسکرین صاف کرتے اور بھیک مانگتے نوعمر بچے بچیوں کی بہتاب ہے۔ اسلام آباد میں دسمبر کے اوائل کی سردی بھی ہڈیوں میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے۔
ایسے سخت موسم میں بھی گاڑیوں کے رکتے ہی سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھے بچے دوڑ کر ساکن گاڑیوں کے ارد گرد منڈلانے اور اپنے اپنے پیشے کی مارکٹنگ باخوبی کر نے لگے۔
اس کی سفید ہنڈا سٹی کے پاس ایک 5 یا 6 سال کا گورا چٹا بچہ جس کے میلے کچیلے کپڑےسوئیٹر سے مبرا تھے اور پاؤں ننگے تھے۔ چہرے پر فرشتے کی سی معصومیت لیے ہاتھوں میں گلاب اور موتیے کے پھولوں کا گجرا لیے کھڑا تھا۔
اس کا چھوٹاسا قد گاڑی کے شیشے تک بھی نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ پیروں کے پنجوں پر کھڑے ہونے پر اس کے سنہرے بال، کنجی آنکھیں اور چھوٹی سی ناک نظر آرہی تھی۔ سردی میں بچے کی آنکھوں اور ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔
اس نے پوچھا۔ کتنے کے ہیں گجرے؟
بچہ بولا! 100 روپے
اس نے بچے کو گاڑی میں رکھی چاکلیٹ دی تو بچے نے جھپٹ کر لے لی اور کھلکھلانے لگا۔
اسی لمحے ایک نسبتاً بڑا لڑکا بچے کے پیچھے آکھڑاہوا۔
کہاں کے ہو۔ گاڑی والے نے بڑے لڑکے سے پوچھا
میں فاٹا سے ہو ں۔ یہ افغان ہے۔
کتنے پیسے جمع کر لیتے ہو؟
3 سے 4 ہزار روپے۔
پھر گرم کپڑے اور جوتے کیوں نہیں لیتے؟
سارے پیسے اکرم لے لیتی ہے صرف 2 یا 4 سو ملتا ہے ہمیں۔ لڑکا بولا
اکرم کون؟
وہی جو ہم سب کو یہاں گاڑی میں لاتی اورلے جاتی ہے۔ ٹھیکیدار ہے ہماری۔ لڑکے نے بتایا۔
سگنل نارنجی ہوا تو گاڑی والے نے 100 ، 100کے 5 نوٹ نکال کے بچوں کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ چھپا کر رکھو ٹھیکیدار سے۔
لڑکا زور سے ہنسا ۔ اکرم ہماری کھال میں چھپا پیسہ بھی نکال لیتی ہے۔
ہرے رنگ کے اشارے نے گاڑی والے کو دوبارہ اپنی زندگی میں لوٹ جانے کی اجازت دی تو گاڑی زناٹے بھرتی ہوئی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
یونائیٹڈ نیشن کے ماتحت چلنے والے اسکول میں غزہ پر اسرائیلی بمباری سے بچ جانے والے لٹے پٹے خاندان پناہ گزین ہیں۔
غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء اور پانی نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری جانب اسپتال میں زخمیوں کے لیے ادویات اور دیگر طبی سامان بھی تقریباً ختم ہونے والا ہے۔ لگتا ہے جو لوگ بمباری سے نہیں مرے وہ اسپتال میں جان بچانے والی ادویات کے نہ ہونے اور غذائی قلت سے جلد یا بدیر موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔
اسکول کے احاطے میں بچے بچیاں آنے والے وقت سے بے خبر دھوپ میں بیٹھے کھیل رہے ہیں۔
وہ 3 ہم عمر بچے بھی اسکول کی دیوار سے متصل ایک کونے میں الگ تھلگ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ ایک لڑکا اور 2 لڑکیاں۔ عمر یہی کوئی 10 سے 12 سال ہوگی۔ بے دُھلے چہرے، الجھے ہوئے بال اور میلے کپڑوں میں ملبوس یہ تینوں اس ایک ہی گلی کے باسی ہیں جہاں اب سوائے کھنڈرات اور ملبے کے کچھ بھی نہیں۔ بمباری میں ان کے زیادہ تر دوست مر چکے ہیں۔ غزہ میں ایک اندازے کے مطابق 7 ہزار سے زیادہ بچے اسرائیلی بمباری سے شہید چکے ہیں۔
اسکولوں، اسپتالوں میں چونکہ بمباری کا خدشہ نہیں شاید اسی لیے یہ لوگ بے گھر ہونے کے باوجود نسبتاً کچھ مطمئن ہیں ۔
ہر بچے کی طرح ان تینوں کے بھی مستقبل کے کچھ خواب ہیں۔ ایک بچی ڈاکٹر دوسری فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی ہے۔ لڑکے کو کہانی کار بننے کا شوق ہے۔ تینوں وہاں بیٹھے کچھ ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔ مایوس کن حالات میں بھی امید کی رمق ابھی باقی ہے ۔
بات کرتے ہوئے ایک بچی کو اچانک کھانسی کا دورہ پڑا۔ لڑکا غالباً اپنی دوست کے لیے پانی لینے اسکول کے ایک کمرے کی جانب بھاگا۔
ابھی وہ گلاس میں پانی انڈیل ہی رہا تھا کہ ایک دم دھماکہ ہوا۔۔۔فضائی حملوں کی بوچھاڑ سے فضا گونج اٹھی۔ ایک ہاہاکار مچ گئی اور لوگ بمباری سے بچنے کے لیے افراتفری میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔
فضائی حملے کی تڑتڑاہٹ ذرا تھمی تو سب اپنے پیاروں کو تلاش کرنے دوڑے۔ اب چاروں جانب سے لوگوں کی آہ و بکا سنائی دے رہی تھی۔
وہ بچہ سرپٹ بھاگتا ہوا احاطے میں آیا جہاں وہ کچھ دیر پہلے اپنی دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں بچیوں کی خون میں لت پت ادھڑی ہوئی لاشیں اس کی آنکھوں کے سامنے موجود تھیں۔
10 دسمبر کو پوری دنیا میں ورلڈ ہیومن رائٹس ڈے بڑے ذوق و شوق سے منایا گیا۔ دنیا کے تمام مہذب اور انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کے سربراہان نے اس موقع پر انسانی حقوق اور اس کی بقا پر خوب دھواں دھار تقاریر کیں۔
آپ سب کو بھی ہیومن رائٹس ڈے مبارک ہو!