فلسطین کا دو ریاستی حل اور عارضی وزیراعظم

اتوار 17 دسمبر 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگر میں مر گیا تو
تمہیں زندہ رہنا ہوگا
میری داستاں سنانے کے لیے
میری چیزیں بیچنے کے لیے
کپڑے کا ایک ٹکڑا خریدنے کے لیے
اور کچھ دھاگے
(ایک لمبی دُم والی سفید پتنگ بنانا)
کہ اگر غزہ میں کہیں کوئی بچہ
عرش کی طرف دیکھے
اپنے اس باپ کا منتظر جو شعلوں میں رخصت ہوا
کسی کو الوداع کیے بغیر
اپنے گوشت پوست کے بغیر
اپنے آپ کے بھی بغیر
یہ پتنگ فضا میں بلند دیکھے، جو تم نے میری پتنگ بنائی ہے
تو ایک لمحے کو سوچے
کہ جیسے فرشتہ لوٹ رہا ہے اسکے اپنے پیارے کے ساتھ
اگر میں مر گیا
تو اسے امید بننے دینا
اسے داستان بننے دینا

یہ دلخراش نظم فلسطینی شاعر رفعت العریر کی ہے، جو اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دوران 7 دسمبر شب خالق حقیقی سے جاملے۔ سوشل میڈیا فلسطینیوں کی دل دہلا دینے والی تصاویر سے بھرا پڑا ہے، ہر جگہ خونچکاں مناظر ہیں۔ ایسا لگتا ہے فلسطین وہ ویرانہ ہے جہاں انسانوں کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔

ظلم کی ایسی داستان رقم کی جا چکی ہے جہاں الفاظ اور اظہار سب بے معنی ہوتے جا رہے ہیں۔ جو اظہار کرے اس کی زباں بندی کر دی جاتی ہے۔ غزہ کی آوازوں کو ایک ایک کرکے چپ کرایا جا رہا ہے۔ فلسطینی مدتوں سے دربدر اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں لیکن انہیں اپنے ہی گھر میں امان نہیں ملتی۔

ہر فلسطینی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ہم بے بس ہیں اور ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ ایسے ہی الفاظ تھے غزہ کی آواز رفعت العریرکےجو دنیا بھر میں مظلوم فلسطیوں کی آواز بنے اور اس جرم کی پاداش میں ان سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ رفعت العریر اپنے قلم سے جنگ لڑنے والے فلسطینی مجاہد تھے جو تمام مظلوموں کی امید تھے، انہیں اور ان کے خاندان کو ایک ٹارگٹڈ حملے میں شہید کردیا گیا۔

جہاں ایک طرف فلسطین میں مظالم کا بازار گرم ہے۔ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے دنیا بھر سے لوگ آوازیں اٹھا رہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر ہیں وہیں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہےکہ قائداعظم نے اسرائیل کے معاملے پر جو رائے دی تھی اس سے اختلاف کرنا کفر نہیں ہوگا۔

انوارالحق کاکڑ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جب قائداعظم نے امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو اب بانی پاکستان کے فرمودات سے انحراف کیوں کیا جا رہا ہے؟

نگران وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا۔ قائداعظم کے جن الفاظ کو کوئی آمر بھی تبدیل نہیں کرسکا، اس پر ایک عارضی وزیراعظم جس کی مدتِ میعاد 8 فروری 2024 ہے، کیوں یوٹرن لیا جا رہا ہے؟

پاکستان بننے سے لے کر اب تک اتنے یو ٹرن لیے گئے کہ قائداعظم بھی شرمندہ ہوں گے۔ ہم قائداعظم کے فرمودات سے تو ویسے ہی منہ موڑ چکے ہیں، کسی دن ’باہمی مشاورت‘ سے اس بات سے بھی مکر جائیں گے کہ پاکستان قائداعظم نے بنایا تھا۔

پاکستان بنانے کا تحفہ تو ہم انہیں خراب ایمبولینس کی صورت پہلے ہی دے چکے ہیں یہ وہ پُر اسرار گھتی ہے جو آج تک سلجھائی نہیں جا سکی۔ اور اب ان کے دوٹوک مؤقف سے انحراف کرکے ہم مزید اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں ۔

عوام کا غم و غصہ بھی عروج پر ہے کہ کیسے قائداعظم محمد علی جانح کے نظریات سے انحراف کیا جا سکتا ہے؟ جہاں ایک طرف فلسطینی زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیا تک کی رسائی سے محروم ہیں، ان کے مکانات، پناہ گاہیں، اسپتال اور عبادت گاہیں بمباری کی زد پر ہیں۔ ہم فلسطین کے لیے آواز اٹھانے اور متحد ہونے کے بجائے دو ریاستی حل کی بات کیسے کرسکتے ہیں۔

فلسطینی مقتل گاہ میں مارے جانے والے بے گُناہ مسلمان عالمی عدالتِ انصاف کی فوری توجہ کے منتظر ہیں۔ یہ وہ بہادر لوگ ہیں جن کے حوصلے بلند ہیں اور وہ کبھی ہار نہیں مانتے لیکن دنیا صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اور اس آگ اور بارود کے کھیل کو محض تماشا سمجھ رہی ہے۔

اور اب ان مظلوم فلسطینیوں کی امیدوں کا محور و مرکز پاکستان بھی دو ریاستی حل کی بات کرکے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہا ہے۔ پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ کون ہے؟ جس کی خوشنودی کی خاطر ’عارضی حکومت‘ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات کو پسِ پشت ڈال کر دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے چل پڑی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp