پی ٹی آئی کا آن لائن جلسہ

پیر 18 دسمبر 2023
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لیڈرشپ کی اصطلاح میں لیڈر ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو پہلا قدم اٹھانے سے نہ ڈرے۔ اس لحاظ سے یہ کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کہ اس نے تیزی سے ارتقا پذیر اس معاشرے میں نئے سے نئے ٹرینڈز متعارف کروائے ہیں۔ چاہے وہ جلسوں میں پارٹی ترانوں کی صورت میں لوگوں کو متوجہ کرنا ہو، سوشل میڈیا کے لیے ایک باقاعدہ تربیت یافتہ ٹیم مرتب کرنا ہو، ٹوئٹر ٹرینڈز ہوں، یوٹیوب پر روزانہ قوم سے خطاب ہو یا ٹک ٹاک پر نئی نسل کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہو۔

ان سب ٹرینڈز کو سیاست میں عملی طور پر شامل کرنے کا سہرا بہرحال عمران خان اور ان کی نوجوان ٹیم کو جاتا ہے۔ کل ان کی ٹیم نے پاکستانی سیاست میں ایک نیا باب متعارف کروایا ہے اور وہ ہے آن لائن جلسہ۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف مقتدر حلقوں کے زیر عتاب رہی۔ پی ٹی آئی کے زیادہ تر رہنما پارٹی چھوڑ چکے، باقی جو پارٹی میں رہ گئے ہیں یا تو قید ہیں یا پھر رو پوش۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کے رہنما لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کی دہائی بھی دیتے پائے گئے ہیں۔

گراؤنڈ پر لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کا توڑ پارٹی کی نوجوان قیادت نے آن لائن جلسے کی صورت میں نکالا۔ ٹوئٹر اور یوٹیوب پر اس لائیو جلسے سے پی ٹی آئی کے زیادہ تر روپوش رہنماؤں نے خطاب کیا۔ جبکہ بعض لوگوں نے انٹرنیٹ بندش اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ڈاؤن ہونے کی بھی شکایات کیں۔

موجودہ حالات میں یہ نیا ٹرینڈ بہرحال ایک اچھی پیش رفت ہے اور اس نے مستقبل میں زیر عتاب سیاسی قیادت کو بھی ایک راہ دکھائی ہے کہ سنسرشپ کے دور میں سیاسی بندشوں کا کیسے توڑ نکالا جائے۔

ٹیکنالوجی کے اس جدید استعمال اور اس تمام تر پیشرفت کے باوجود اب ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں ایسی کوششیں کیا زمینی حقائق کو تبدیل کرسکتی ہیں؟ کیا آن لائن جلسے منعقد کروانے سے کوئی زیر عتاب سیاسی جماعت الیکشن جیت سکتی ہے؟ کیا سوشل میڈیا کی شہرت کسی لیڈر کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان کروا سکتی ہے؟ اگر اس کو پاکستان کی انتخابی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر ذی شعور شخص جس کا الیکشن سے کسی بھی طرح واسطہ پڑا ہو چاہے وہ ووٹر کی صورت میں ہو، ایک سیاسی ورکر کی صورت میں ہو، سیاسی لیڈر کی شکل میں ہو یا پھر ایک صحافی کی طور پر تو آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ سوشل میڈیا کی دنیا اور انتخابی دنیا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

سوشل میڈیا پر کسی کے حق میں آواز اٹھانا بھی آسان ہے، اپنی آواز دوسروں تک پہنچانا بھی آسان اور ہم خیال لوگوں تک رسائی بھی آسان۔ لیکن حقیقی دنیا اور انتخابی ماحول بالکل مختلف کام ہے۔

پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک، الیکشن ایک سائنس ہے اور اب یہ ایک کمرشل ایکٹویٹی بن چکا ہے۔ اس میں آپ کو سرمایہ بھی انویسٹ کرنا پڑتا ہے اور افرادی قوت بھی درکار ہوتی ہے۔

ان دونوں چیزوں کے علاوہ تیسری چیز ایک موثر سٹریٹیجی یا حکمت عملی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر حلقے کی الیکشن کمپین کے لیے دوسرے حلقے سے بالکل مختلف حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔ اور یہ انتخابی مہم تب ہی کامیاب ہوتی ہے جب کسی سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر کو مکمل آزادی حاصل ہو، پارٹی اور ذاتی وسائل بھی دستیاب ہوں۔

موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کو نہ الیکشن مہم چلانے کی وہ آزادی حاصل ہے جو اسے 2018 کے الیکشن کے وقت تھی، نہ وہ منفرد  لیڈرز اور نہ ہی پارٹی لیول پر وہ وسائل دستیاب ہیں جو انتخابات جیتنے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔

پی ٹی آئی بطور پارٹی صرف اور صرف عمران خان کی شہرت پر انحصار کررہی ہے۔ مانا کہ ہر حلقے میں پارٹی کا 40-50 ہزار ووٹ ہوگا۔ لیکن موجودہ مردم شماری کے بعد ہر حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بڑھنے سے پارٹی ووٹوں کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر امیدوار کے اپنے تعلق اور دھڑوں کے ووٹ بھی درکار ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر الیکشن جیتنا موجودہ حالات میں مشکل ہوگا۔

اس کے علاوہ سب سے اہم پولنگ ڈے ہوتا ہے۔ الیکشن کے دن جو امیدوار اپنے زیادہ سے زیادہ ووٹرز نکالنے میں کامیاب ہوتا ہے، الیکشن کا معرکہ وہی سر کرتا ہے۔ اس کے لیے پارٹی کی مقامی سطح پر تنظیم، ہر پولنگ اسٹیشن پر ورکرز کا ہونا، متحرک پولنگ ایجنٹس، ٹرانسپورٹیشن کا بندوبست یہ تمام اجزا ملا کر ہی کوئی امیدوار موثر طور پر الیکشن میں مقابلہ کرتا ہے۔

کیا پی ٹی آئی کے پاس الیکشن ڈے کے لیے یہ تمام تر بندوبست موجود ہے؟ اس کا بظاہر جواب تو ہے:نہیں۔ ان تمام تر انتظامات کی عدم دستیابی کے باوجود بھی کیا پی ٹی آئی صرف عمران خان کی شہرت کی بنیاد پر الیکشن جیت سکتی ہے؟ میرے خیال میں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔

ٹوئٹر، ٹک ٹاک، آن لائن جلسے کسی لیڈر کی شہرت قائم رکھنے میں مددگار تو ضرور ہوسکتے ہیں لیکن الیکشن جتوانا انسانوں نے ہی ہے۔ اس کے لیے کیا بندوبست کیا ہے؟ پی ٹی آئی کی طرف سے اس سوال کا جواب ہی پارٹی کے الیکشن نتائج کا تعین کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp