انٹرنیٹ کی بندش سے فائدہ تحریک انصاف کو ہوا؟

پیر 18 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ روز 17 دسمبر کو ایک آن لائن جلسے کا انعقاد کیا جس میں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان سمیت  پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ اس آن لائن سرگرمی میں تحریک انصاف کے کئی روپوش رہنماؤں نے بھی حصہ لیا اور کارکنان سے خطاب کیا۔ تقریباً پونے 5 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس آن لائن جلسے کے انتظامات تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے کیے جس کے مطابق دنیا بھر سے 30 پارٹی مراکز سے لوگ اس جلسے کے لیے جمع تھے۔

اس آن لائن سرگرمی کے وقت پاکستان بھر میں سوشل میڈیا ویب سائٹس تک رسائی اور انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے کی شکایات سامنے آئیں۔ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ملک بھر میں صارفین معمول کے مطابق انٹرنیٹ تک رسائی کر پارہے ہیں تاہم اتوار کی رات کوفیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام اور ایکس(ٹوئٹر)  کی سروس استعمال کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا جس کی  تحقیقات کی جا رہی ہے۔

ایک مخصوص  وقت میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سائٹس کی بندش اور  سست رفتاری کے بعد دوبارہ سے بحالی کو تحریک انصاف کے آن لائن جلسے سے جوڑا جا رہا ہے جسے اس وقت کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ زیرنظر تحریر میں ہم نے ان اقدامات کے فوائد و نقصانات سمیت تحریک انصاف کے چیلنجز کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

‘جنہیں نہیں بھی معلوم تھا انہیں جلسے کا پتا چل گیا’

تجزیہ کار ماجد نظامی نے کہا کہ ’اس طرح کے روایتی ہتھکنڈے دقیانوسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان اقدامات سے وہ اپوزیشن کو ہی فائدہ دے رہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ تک رسائی میں رکاوٹ سے جن لوگوں کو نہیں بھی معلوم تھا انہیں بھی رات میں پتا چل گیا کہ آن لائن جلسہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا گیا  ہے‘۔  فری لانسنگ اور آن لائن کاروبار سے وابستہ افراد کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات پر ان کا کہنا تھا کہ یہ حکمت عملی نہ صرف سیاسی اعتبار سے انتہائی ناقص تھی بلکہ کاروباری اور معاشی نقظہ نظر سے بھی انتہائی احمقانہ تھی۔

’فائدہ تو نہیں مگر بہانہ ضرور مل گیا ہے‘

صحافی احمد ولید اس خیال سے متفق نہیں کہ تحریک انصاف کو انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا سائٹس کی بندش کوئی فائدہ دے گی البتہ ان کا کہنا ہے کہ اس عمل سے آن لائن جلسے میں اگر کوئی خامیاں بھی تھیں تو اسے چھپانے کا موقع مل گیا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مثلاً اگر انہیں یہ دکھانا تھا کہ اس جلسے میں آن لائن بیسیوں لاکھ افراد ہمہ وقت موجود تھے تو ایسا نہیں ہو سکا لیکن اب انہیں ایک جواز مل گیا ہے کہ دیکھیں ہماری راہ میں کیسی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔

ان کے مطابق یہ اقدامات ان پالیسیوں کا تسلسل ہیں جو ہر حکومت اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے اپناتی ہے اگر جلسہ کسی کھلے میدان میں ہو رہا ہوتا تھا تو اس میں پانی چھوڑ دیا جائے گا اور ٹرانسپورٹرز پر سختی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں جلسے کے لیے استعمال نہ کریں۔

احمد ولید کہتے ہیں یہ رکاوٹیں عموماً سیاسی جماعتوں کے لیے کوئی بڑا چیلنج ثابت نہیں ہوتیں اور تحریک انصاف اس وقت اگر پاپولر جماعت ہے تو اسے اپنے کارکنان کو متحرک رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی سرگرمی تو کرنی ہے خواہ وہ آن لائن ہو یا فزیکل۔

تحریک انصاف کے کارکنان کو اُمید ملی ہے

اس آن لائن  جلسے سے مایوسی اور خوف کےشکار تحریک انصاف کے کارکنان کو اُمید کی ایک کرن نظر آئی ہے لیکن اس کے ساتھ کئی دیگر پہلو ایسے ہیں جن پر انہیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر 40 ہزار یا لاکھ لوگ اگر جلسہ سن رہے ہیں تو یہ وہ تعداد ہے جس سے بمشکل ایک نشست ہی جیتی جا سکتی ہے۔ گو سوشل میڈیا پر تحریک انصاف دیگر جماعتوں سے کہیں آگے ہے لیکن  اصل امتحان یہ ہے کہ 8 فروری کو اس سپورٹ کو ووٹ میں بدلا جائے۔

ماجد نظامی کے مطابق جس وقت تحریک انصاف اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ لے کر نکل رہی تھی تو لاہور سے حماد اظہر اور یاسمین راشد کے ایک ایک ٹوئٹ پر پندرہ، بیس ہزار لائیکس آتے تھے لیکن عملاًاُ س وقت  بھاٹی چوک میں صرف 400 لوگ موجود تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp