پاکستان میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں 50 دنوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران سمیت دیگر عملے کی ٹریننگ کا عمل جاری کیا ہوا ہے اور اس مرتبہ ڈی آر او کے فرائض انتظامیہ کے افسران، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز وغیرہ سرانجام دیں گے۔
آئین کے مطابق نگراں حکومت وقت پر صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی مدد کرتی ہے اور تمام انتظامی عہدوں پر سیاسی حکومتوں کی جانب سے تعینات کیے گئے افسران کے فوری تبادلے کرتی ہے تاہم اس مرتبہ تمام افسران کے تبادلے نہ ہو سکے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں میں شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے تعینات کیے گئے افسران کو اب تک تبدیل نہیں کیا گیا۔ اسلام آباد کے آئی جی ناصر اکبر، ڈپٹی کمشنر عرفان میمن اور متعدد اسسٹنٹ کمشنرز ایسے ہیں جو حکومتی فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے خلاف سخت کارروائیاں کر چکے ہیں اور انہیں گرفتار بھی کر چکے ہیں تاہم الیکشن شیڈیول کے اعلان کے باوجود ان افسران کو عہدوں سے ہٹایا نہیں جاسکا۔
وی نیوز نے ملک بھر میں منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے لیے کوشاں نجی ادارے فافن اور پلڈاٹ کے سربراہان سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا سیاسی حکومتوں کے تعینات کردہ افسران کی موجودگی میں عام انتخابات شفاف ہو سکتے ہیں؟
پاکستان میں قانون سازی اور انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی طور پر تو پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے اہم انتظامی عہدوں پر تعینات تمام افسران کو نگراں حکومت کے تشکیل ہوتے ہی تبدیل کر دینا چاہیے تھا لیکن اب بہت وقت گزر گیا ہے۔
مزید پڑھیں
آحمد بلال محبوب نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ہارنے والی جماعت جیتنے والی جماعت پر الزامات عائد کرتی ہے، سنہ 2013 کے انتخابات اور سنہ 2018 کے انتخابات میں بھی ہارنے والی جماعتوں نے عام انتخابات میں دھاندلی ہونے کا شور مچایا جبکہ الیکشن 2018 کو ’ڈمی‘ اور ’آر اوز‘ کا الیکشن قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں اس بات کی یقین دہانی کرانی ہو گی کہ اس مرتبہ جس بھی افسر کے خلاف شکایت آئے اس کے خلاف کارروائی ہو لیکن اگر کسی ایک افسر نے حکومت کے کسی حکم پر کسی فرد کو گرفتار کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جانبدار ہے کیوں کہ گرفتاری کے احکامات افسران کو ہی جاری کیے جاتے ہیں تاہم بہت اچھا ہوتا کہ اگر نگراں حکومت نیوٹرل افسران تعینات کر دیتی۔
پاکستان میں انتخابی عمل کے صاف و شفاف ہونے کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘فافن’ کے ڈائریکٹر پروگرامز مدثر رضوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جو افسران تعینات ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بالکل غیر جانبدار ہو کر انتخابی عمل کو پورا کریں، اگر کوئی بھی افسر جانبداری دکھائے تو الیکشن کمیشن کے پاس مکمل اختیار ہے کہ وہ ایسے افسر کو نہ صرف برطرف کرے بلکہ اس کی سرکاری نوکری بھی ختم کرے۔
مدثر رضوی نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں آئین کے تحت الیکشن کمیشن ان اختیارات کا استعمال کر سکتا ہے، ابھی تک اگر سیاسی حکومتوں کے افسران تعینات ہیں تو میرے خیال میں ابھی اگر ان کے تبادلے کرتے ہیں تو اور زیادہ شکوک و شبہات جنم لیں گے کہ اس وقت تبادلے کیوں ہو رہے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو نیا افسر تعینات کیا جائے وہ بھی جانبدار ہو اور کسی پارٹی کو سپورٹ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن قوانین کے سیکشن 55 کے تحت الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ الیکشن میں تعینات افسران کے کسی بھی قسم کے جانبدرا یا غیر آئینی رویے کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا یہ سیکشن 55 کے سب سیکشن 3 کے تحت ایسے افسر کو نوکری سے فارغ کر سکتا ہے، اس کے علاوہ پی ڈی ایم حکومت نے اگست میں جو الیکشن قوانین میں ترمیم کی تھی اس کے تحت وہ افسران جو الیکشن ڈیوٹی کے فرائض انجام نہیں بھی دے رہے پھر بھی اگر الیکشن پر اثر انداز ہوتے ہیں یا کسی کی غیر ضروری سپورٹ کرتے ہیں تو ان کے خلاف الیکشن کمیشن فوجداری مقدمات کی کارروائی کرے گا۔