نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان تاریخ کے دوراہے پر ہوتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں غیر دستاویزی افراد کوٹھہرا کر اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتا کیوں کہ ہمارا آصل مقصد ایک محفوظ، زیادہ پرامن اور خوشحال پاکستان کی تشکیل ہےجس سے ہمارے اپنے لوگ، خطہ اور دنیا مستفید ہو۔
وزیراعظم نے دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ دنیا بھر کی حکومتیں تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اقتصادی مواقع سے منسلک بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے ایک نئے دور کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی حکومت کا غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ اسی دباؤ کی علامت تھا، اس تجویز کے گرد گرما گرم بحث اور اسکیم کو پٹڑی سے اتارنے کی بہت سی کوششوں نے پالیسی سازوں کے لیے بہت بڑے چیلنجوں کی عکاسی کی کیونکہ وہ انسانی حقوق کو سخت حقائق کے ساتھ متوازن کرنا چاہتے تھے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ فرانس بھی نبرد آزما ہے جبکہ اٹلی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ یورپ کا مہاجر کیمپ بن سکتا ہے،حالیہ برسوں میں کئی ملین پناہ گزینوں کے لیے اپنی راہیں کھولنے کے بعد جرمنی بھی تناؤ محسوس کر رہا ہے اور ملک بدری کے نئے سخت اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
’پاکستان میں گزشتہ 4 دہائیوں میں آئرلینڈ کی آبادی جتنے تارکین وطن آئے ہیں‘
وزیراعظم نے کہا کہ امریکا میں بھی صورتحال آسان نہیں ہے تاہم پاکستان کا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت کا ہے، گزشتہ 3 سے 4 دہائیوں کے دوران 4 سے 5 ملین کے درمیان تارکین وطن آچکے ہیں جو آئر لینڈ کی آبادی کے برابر ہیں۔
انہوں نے تحریر کیا کہ سنہ 1951 کے مہاجرین کے کنونشن (اور اس کے سنہ 1967 کے پروٹوکول) پر دستخط نہ کرنے کے باوجودہم نے فراخدلی سے پناہ گزینوں کو جگہ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں ہے اور یہ ملک اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے طویل عرصہ جتنے لوگوں کو جگہ دے سکتی تھی انہیں یہاں رکھنے کے لیے بہت محنت کی جبکہ جن کا یہاں رہنے کا کوئی حق بھی نہیں تھا انہیں بھی رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے لیے مناسب موقع دیا۔
’حکومت نے غیر رجسٹرڈ غیرملکیوں کو متعدد مواقع دیے لیکن وہ نہیں مانے‘
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے متعدد مواقع کے باوجود اور غیر دستاویزی رہنے والوں کو رجسٹر کرنے کے لیے متعدد حکومتی کوششوں کے باوجود ایک قابل ذکر تعداد نے مستقل طور پر اپنی حیثیت کو باقاعدہ بنانے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں پاکستان نے بہت سے محنتی اور قانون کی پاسداری کرنے والے تارکین وطن سے فائدہ اٹھایا ہے وہیں اس بھاری تعداد میں آمد کی مجموعی سماجی، اقتصادی اور سیکیورٹی کی بڑی قیمت بھی چکائی ہے۔
’متعدد تارکین وطن پاکستان میں بلیک مارکیٹنگ میں ملوث اور انڈر ورلڈ اور دہشتگردوں کے آلہ کار ہیں‘
وزیراعظم نے کہا کہ بہت سے لوگ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں، کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے، وہ مجرمانہ انڈرورلڈ کے استحصال کا بھی شکار ہیں، ان کے خطے میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں سے روابط بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگست 2021 سے کم از کم 16 افغان شہریوں نے پاکستان کے اندر خودکش حملے کیے ہیں جبکہ 65 دہشت گرد سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے اور خاص طور پر سرحدی علاقے میں ان کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر ہوئی۔
’غیرقانونی تارکین وطن کے انخلا کا فیصلہ افغان حکومت کے مشورے کی روشنی میں ہی کیا‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ذمہ دار حکومت اس طرح کے خدشات کو نظر انداز نہیں کر سکتی، جب بھی ہم نے یہ بات عبوری افغان حکومت کے ساتھ اٹھائی تو انہوں نے ہمیں اپنے اندر کی طرف دیکھنے کا مشورہ دیا، ہم نے آخر کار اپنے گھر کو ترتیب دینے کے لیے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے وطن واپسی کے پروگرام نے ان لوگوں کی طرف سے متوقع تنقید کو اپنی طرف متوجہ کیا جو مسئلے کی پیچیدہ تاریخ کو نہیں سمجھتے تھے یا پھر زبردستی ملک بدری سے گریز کے لیے کی جانے والی غیر معمولی کوششوں کا ادراک نہیں رکھتے تھے۔
’متعلقہ افسران کو ڈی پورٹ کیے جانے والوں کے ساتھ احترام برتنے، سہولیات دینے کی خاص ہدایت کی ہے‘
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ وطن واپس بھیجنے جانے والوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے پروگرام میں شامل تمام عہدیداروں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ ڈی پورٹ ہونے والوں کا مناسب احترام اور دیکھ بھال کریں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا زور افراد کی ملک بدری نہیں بلکہ رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار وطن واپسی (ان کے قانونی طور پر حاصل کردہ اثاثوں کے ساتھ) پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان واپس جانے والوں میں سے تقریباً 93 فیصد نے رضاکارانہ طور پر ایسا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 79 ٹرانزٹ مراکز قائم کیے گئے ہیں جن میں مفت کھانا، پناہ گاہ اور طبی سہولیات فراہم کی گئی ہیں جبکہ عمل کو آسان بنانے کے لیے پاک افغان سرحد پر اضافی کراسنگ پوائنٹس کھولے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکار تارکین وطن کو سرحدی گزرگاہوں تک لے جا رہے ہیں، خواتین اور بچوں کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے ار کسی بھی بدسلوکی کی اطلاع دینے کے لیے ایمرجنسی ہیلپ لائنز دستیاب ہیں۔
’22 لاکھ سے زیادہ درخواست دہندگان اور افغان شہری کارڈ رکھنے والوں کو واپس نہیں بھیجا جا رہا‘
وزیراعظم نے دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ رجسٹریشن کارڈ کے ثبوت کے لیے درخواست دینے والے 14 لاکھ 60 ہزار افغانوں میں سے کسی کو بھی واپس نہیں کیا گیا ہےاور نہ ہی ان میں وہ 8 لاکھ سے زیادہ افراد شامل ہیں جن کے پاس افغان شہری کارڈ ہیں۔