پاکستان کی معروف اداکارہ عائشہ عمر نے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے بارے میں اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے وہ کراچی میں تناؤ اور بے چینی محسوس کرتی ہیں اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتی۔’
پاکستان کی معروف اداکارہ عائشہ عمر نے عدنان فیصل کے پوڈ کاسٹ میں کہا ہے کہ ‘میں یہاں محفوظ محسوس نہیں کرتی ، میں سڑک پر چلنا چاہتی ہوں کیونکہ تازہ ہوا کے لیے باہر جانا ہر انسان کی ضرورت ہے۔ میں سائیکل چلانا چاہتی ہوں لیکن میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔’
عائشہ عمر کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 لاک ڈاؤن کے دوران خواتین باہر جا سکتی تھیں۔ ’میں کراچی میں تناؤ اور بے چینی محسوس کرتی ہوں اور میں صرف خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی اور مجھے نہیں لگتا کہ دیگر بہت سی خواتین خود کو محفوظ سمجھتی ہیں۔‘
‘انہوں نے کہا کہ مرد کبھی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ پاکستانی عورتیں کتنی کوشش کے بعد پروان چڑھتی ہیں۔ ’اس ملک میں عورت کو جس خوف کا سامنا ہے اسے مرد نہیں سمجھ سکتے،آپ ہر سیکنڈ میں بے چینی محسوس کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ کالج میں تھیں تو وہ کراچی کے مقابلے لاہور میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی تھیں، وہ بس میں سفر کرتی تھیں۔ جب ان سے کراچی میں اپنے تجربات کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اسے دو بار لوٹا گیا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اغوا، عصمت دری یا بدفعلی کے خوف کے بغیر پاکستان میں آزادی سے نہیں چل سکتی۔’آزادی اور حفاظت ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے جو یہاں نہیں ہے۔’
عائشہ عمر نے کہا کہ ’آپ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہیں، جرم ہر ملک میں ہوتا ہے لیکن آپ پھر بھی باہر جا سکتے ہیں اور آزادی سے گھوم سکتے ہیں۔ میں ہراساں ہوئے بغیر یہاں کسی پارک میں بھی نہیں جا سکتی۔‘
دوسری جانب عاشئہ عمر نے کہا ہے کہ وہ پاکستان سے پیار کرتی ہیں کیونکہ اس نے انہیں سب کچھ دیا ہے۔’مجھے پاکستان سے پیار ہے اور اگر میرے پاس رہنے کے لیے دنیا میں کہیں سے بھی انتخاب کرنے کو کہا جائے تو میں پاکستان کا انتخاب کروں گی۔‘
اداکارہ نے کہا کہ ان کا بھائی پاکستان سے بیرون ملک منتقل ہو گیا ہے۔ وہ ڈنمارک میں رہتا ہے اور ان کی والدہ بھی ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔