کیا 8 فروری کو انتخابات کی چائے کا کپ ہونٹوں تک پہنچ پائے گا؟

منگل 19 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ دینے اور شیڈول کا اعلان کرنے کے باوجود یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا 8 فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے گا یا نہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 فروری کو پتھر پر لکیر قرار دیتے ہوئے اسی روز پولنگ کرانے کے احکامات دے رکھے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس سب کے باوجود لوگوں کو انتخابات کے التوا کا خدشہ کیوں ہے۔

عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں، سپریم کورٹ کا کڑا پہرہ

انگریزی کا مقولہ ہے کہ کپ کے ہاتھ سے ہونٹوں تک پہنچنے میں کئی ’جاں گسل‘ مراحل درپیش ہوتے ہیں اور ایسا ہی کچھ نظر آتا ہے پاکستان میں 8 فروری کو مجوزہ عام انتخابات کے معاملے میں جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان اس کوشش میں ہے کہ 8 فروری کو عام انتخابات کی راہ سے تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے تو دوسری طرف ایسی کوششیں بھی نظر آتی ہیں جن کا بظاہر مقصد عام انتخابات کے انعقاد کو روکنا ہے۔

15 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوری ایکشن لیتے ہوئے نے لاہور ہائیکورٹ کے ایک ایسے حکمنامے کو معطل کیا جو نہ کیا جاتا تو انتخابات کا انعقاد مشکل میں پڑ جاتا۔ مذکورہ حکم نامے کے ذریعے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کی استدعا پر ریٹرننگ افسران کے تقرر سے متعلق حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکمنامہ معطل کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ زبانی طور پر لاہور ہائیکورٹ کے جج کی گوشمالی بھی کی اور عام انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو انتباہ بھی کر ڈالا کہ ایسی کاوشوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

امروز بلوچستان میں حلقہ بندیوں کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے بلوچستان ہائیکورٹ کا حکم امتناع معطل کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کو مخاطب کر تے ہوئے کہاکہ یہ اکیلا آپ کا مسئلہ نہیں ہر حلقے میں یہ مسلٸہ ہوگا، اگر ایک حلقے کے حوالے سے کوئی فیصلہ دیں گے تو پھر دیگر کو بھی دیکھنا پڑے گا، ہر پارٹی اپنی خواہش کے مطابق حلقہ بندیاں چاہتی ہے، ہم انتخابات میں تاخیر کا کوٸی چانس نہیں لینا چاہتے۔

قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق مسعود بولے کہ ایسا کرنے سے الیکشن معاملات مکمل ڈی ریل ہوسکتے ہیں، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ انتخابات نہ ہوتے تودرمیان میں مداخلت نا کرتے۔

حلقہ بندیوں بارے ایک اور درخواست پر سماعت کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ملک میں استحکام آیا ہے، درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ ملک میں استحکام نہیں چاہتے۔

پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتراضات

جہاں ایک طرف سپریم کورٹ آف پاکستان ہر حال میں 8 فروری کو عام انتخابات کرانے پر کمربستہ ہے، تو دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں اور آج پاکستان بار کونسل نے چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایسشن نے ان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ دونوں بڑی وکلا تنظیموں نے کہاکہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔

8 فروری کو انتخابات ہو جانے چاہییں، عابد زبیری

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد زبیری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی موجودہ قیادت نے جو پریس ریلیز جاری کی ہے وہ اپنے لیڈر احسن بھون کی خاطر یہ سب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حافظ آباد میں ایک نیا حلقہ تشکیل دیے جانے کے لیے چونکہ احسن بھون کی درخواست مسترد ہوئی ہے اس لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے یہ پریس ریلیز جاری کی۔

عابد زبیری نے کہاکہ اپنی صدارت کی مدت کے دوران انہوں نے تو سپریم کورٹ میں 6 نومبر کو انتخابات کے حوالے سے درخواست دائر کی تھی اور 8 فروری کو تو لازمی طور پر انتخابات ہونے ہی چاہییں، یہ آئینی تقاضا ہے اور اس سے زیادہ تاخیر برداشت نہیں کی جانی چاہیے۔

بارایسوسی ایشن اور بار کونسل کی ایک جیس پریس ریلیز محض اتفاق نہیں ہو سکتا، کامران مرتضیٰ

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضٰی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے ایک ہی جیسی پریس ریلیز کا اجرا محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔

کامران مرتضٰی نے کہاکہ جو بھی ہو انتخابات لازمی طور پر 8 فروری کو ہی ہونا چاہییں کیونکہ اس وقت ملک میں منتخب نمائندوں کی حکومت نہیں جو کہ آئین کے دیباچے میں طے کیے گئے اصولوں کی خلاف ورزی ہے، انتخابات کے ذریعے سے اپنے حکمران منتخب کرنا عوام کا حق ہے اور جو کوئی اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا وہ عوام کے حق کے خلاف ہوگا۔

حلقہ بندیوں کے معاملے میں سنگین غلطیاں کی گئی ہیں

حلقہ بندیوں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس معاملے میں سنگین غلطیاں کی گئی ہیں۔ بلوچستان میں ایک انتخابی حلقے کی بنیاد 2 لاکھ 92 ہزار لیکن کہیں ایک لاکھ 76 ہزار پہ حلقہ بنایا گیا ہے اور کہیں سوا 4 لاکھ پہ، کسی جگہ ضلع توڑ دیا گیا ہے اور کسی جگہ 2 اضلاع کو جوڑ دیا گیا ہے، اس طرح سے بعض جگہوں پر شدید زیادتیاں کی گئی ہیں۔

کامران مرتضٰی نے کہاکہ بلوچستان میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایک معاملے کو سپریم کورٹ لے کر گئے لیکن سپریم کورٹ نے کہا کہ بڑے اصول کی خاطر ابھی اس معاملے کو نہیں چھیڑیں گے لیکن میری خواہش ہے کہ یہ سارا معاملہ سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے لیکن ایک دفعہ الیکشن ہو جائے تو اس کے بعد۔

کامران مرتضٰی نے کہاکہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر شدید اعتراضات کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات 8 فروری کو ہی ہونے چاہییں۔

حلقہ بندیوں پر سب لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا، کنور دلشاد

سابق چیف الیکشن کمشنر کنور دلشاد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر صورت اور 100 فیصد 8 فروری کو انتخابات ہونے چاہییں۔ حلقہ بندیوں کے معاملے پر اٹھنے والے اعتراضات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بارے میں آپ سب لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ ایک کا اعتراض دور کریں گے تو دوسرا اعتراض کر دے گا۔ کنور دلشاد نے کہا کہ پنجاب حکومت سے تعلق کی بنا پر باقی معاملات پر وہ تبصرہ نہیں کر سکتے۔

لوگوں کی خواہشات پر چلیں گے تو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، مدثر رضوی

فری اینڈ فیئر الیکشن کے حوالے سے صورتحال کو مانیٹر کرنے والے ادارے فافن کے نمائندے مدثر رضوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر لوگوں کی خواہشات پر چلنے لگیں تو انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے، لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ انتخابی عمل کو کسی صورت بھی نہیں رکنا چاہیے۔

پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر پر اٹھائے گئے اعتراضات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مدثر رضوی نے کہاکہ سپریم کورٹ چیف الیکشن کمشنر کو نہیں ہٹا سکتی، اس کے لیے متعلقہ فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے اور جن لوگوں کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتراض ہے انہیں وہاں ریفرنس دائر کرنا چاہیے۔

حلقہ بندیوں پر اٹھنے والے اعتراضات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کا عمل سیاسی کے بجائے قانونی بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور گو کہ حلقہ بندیوں کے بارے میں 10 فیصد کے اصول کا اطلاق نہیں کیا گیا اور کچھ اعتراضات ضرور ہیں لیکن ایک حلقے کی حلقہ بندی کو تبدیل کر کے دوسری پارٹی کو اعتراضات دائر کرنے کے لیے ایک مہینے کا وقت دینے کا مطلب ہے کہ انتخابی عمل روک دیا جائے۔

ایک فریق کو مطمئن کریں گے تو دوسرا اعتراض کر دےگا

انہوں نے کہاکہ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ حلقہ بندیوں سے اگر فریق متفق ہو گا تو دوسرا ناراض نہیں ہو گا۔ اور اس طرح سے اعتراضات کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہے گا۔ ایسا بھی نہیں کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت نہیں کی۔ انہوں نے کافی اعتراضات کی سماعت کی ہے اور اس کے نتیجے میں کئی حلقہ بندیوں کو تبدیل بھی کیا ہے۔ اسی طرح سے قانون سازی کے ذریعے سے الیکشن کمیشن کو سرکاری افسران کی تقرری اور تبادلوں کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں تو انفرادی طور پر اگر کسی امیدوار کو کسی سرکاری افسر سے شکایت ہو تو وہ الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔

مدثر رضوی نے کہا کہ وکلا تنظیمیں سیاسی بنیادوں پر استوار ہو چکی ہیں لیکن سیاسی جماعتیں ہوں، پروفیشنل باڈیز یا وکلا تنظیمیں، ان کو انتخابی عمل میں رکاوٹ کا موجب نہیں بننا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp