کراچی میں تاجر کے گھر ہونے والی ڈکیتی کے کیس میں ایس ایس پی عمران قریشی دوبارہ مشکل میں پھنس گئے۔ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر نے تفتیشی افسر کے نام اسکروٹنی نوٹ جاری کردیا۔
اسکروٹنی نوٹ کے مطابق واقعہ ہونے کے بعد 2 دن تک مقدمہ بغیر کسی وجہ کے درج نہیں کیا گیا، مدعی کے بیان کی کاپی اور تحقیقاتی کمیٹی کی جے آئی ٹی کی کاپی بھی چالان میں موجود نہیں۔
چھاپے کا پورا منصوبہ عمران قریشی کا تھا، اسکروٹنی نوٹ
ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر شفیق احمد سومرو کے اسکروٹنی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق ایس ایس پی جنوبی عمران قریشی نے ایس ایس پی غربی اور ڈی آئی جی غربی کو اطلاع دی تھی، وہ اطلاع جو عمران قریشی کو وفاقی ادارے سے ملی تھی تفتیشی افسر نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔
وکیل سرکار نے اسکروٹنی نوٹ میں لکھا ہے کہ چھاپے کا پورا منصوبہ عمران قریشی کا تھا جو کہ وفاقی ایجنسی کی معلومات پر بنایا گیا اور عمران قریشی ہی کی ریوو گاڑی اس کارروائی میں استعمال ہوئی، عمران قریشی کو بری الذمہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
’عمران قریشی کا بیان یہ بتا رہا ہے کہ اس نے چھاپے کا حکم دیا جبکہ عمیر بجاری نے اپنے فرض کی تعمیل کی، اطلاع دینے والے افراد چھاپے کے وقت اور بعد میں موجود تھے، اُنہیں بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے تھا‘۔
وفاقی ایجنسی کے اہلکاروں کا بیان قلمبند کیوں نہیں کیا گیا؟
اسکروٹنی نوٹ کے مطابق وفاقی ایجنسی کے اہلکار اس کارروائی سے قبل اور بعد میں وہاں موجود تھے تو ان کو شامل تفتیش کر کے بیان قلمبند کرنا چاہیے تھا، پولیس کی جانب سے گواہوں کے بیانات کے مطابق ڈی ایس پی عمیر نے انہیں بتایا کہ سادہ لباس اہلکاروں کا تعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے سے ہے جو کہ ایس ایس پی کی جانب سے ریڈ کے لیے فراہم کیے گئے ہیں یہی وجہ تھی کہ انہیں پلان کا حصہ بنایا گیا تھا۔
گواہوں کے بیان کے مطابق ڈی ایس پی عمیر اپنے عملے کے ہمراہ سڑک کی طرف گئے اور بنارس چوک سے یوٹرن لے کر وہاں ایک ہوٹل میں چائے پی اور آدھے گھنٹے کے بعد عسکری 3 کے لیے روانہ ہوئے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈی ایس پی عمیر اور ان کا عملہ گھر کے اندر نہیں گیا اور نا ہی کارروائی کا حصہ بنا۔
ڈی ایس پی عمیر کا اس واردات سے کوئی تعلق نہیں ہے
اسکروٹنی نوٹ کے مطابق بھتے کے حوالے سے بھی ایک ملزم کا بیان سامنے آچکا ہے اس صورت حال میں تفتیشی افسر کو مزید تفتیش کرنے کی ضرورت تھی۔
ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر شفیق احمد سومرو نے قرار دیا ہے کہ ڈی ایس پی عمیر کا اس واردات سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ تفتیشی افسر کو چاہیے کہ جن پہلوؤں کی مزید تفتیش کرنے کی ضرورت ہے ان کی چھان بین کے بعد متعلقہ عدالت کے روبرو رپورٹ پیش کی جائے۔
اسکروٹنی نوٹ کیا ہوتا ہے؟
کسی بھی مقدمہ میں پولیس کی جانب سے عدالت میں عبوری چالان جمع کرانے کے بعد اسے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کو بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اس کو ہر زاویے سے دیکھ کر عدالت کو اس سے آگاہ کر سکے کہ آیا چالان میں موجود معلومات مکمل ہیں یا مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کسی کو بنا تفتیش کے رعایت تو نہیں دی گئی یا کسی کو بنا تفتیش کے پھنسایا تو نہیں گیا۔
اسکروٹنی ٹیم ایک یا ایک سے زیادہ سرکاری وکلا پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ وہ تمام پہلوؤں کی جانچ پڑتال کے بعد اگر چالان میں کوئی نرمی یا کوتاہی برتی گئی ہو تو اس کی نشاندہی کر کے اسکروٹنی نوٹ مرتب کرتی ہے اور اسے متعلقہ عدالت اور ادارے تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
اسکروٹنی نوٹ ہی ہوتا ہے جس کے باعث بڑے بڑے ملزمان کے خلاف قانون کی گرفت سخت ہوجاتی ہے اور کہیں اگر پولیس نے نرمی برتی ہے اور اسے نظر انداز کردیا جائے تو اسکروٹنی نوٹ نا آنے کی صورت میں مجرموں کو ریلیف بھی مل جاتا ہے۔