دریائے جمنا کے پہلو میں کھڑی سفید عمارت جس کی الفت میں ہر برس پینسٹھ لاکھ لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے آتے ہیں، جس کا جمال انسانی آنکھ سے ماوارا محسوس ہوتا ہے، جس کے پہلو میں بہتا ہوا دریا اس کی تعظیم میں ٹھہر کر چلتا ہے۔ لیکن اس پرشکوہ عمارت کا سِحر بھی ساحر کے دل کو خیرہ نہ کر سکا۔ اس کے نقوش، درو دیوار، اس کی ہیبت و جلال، اس کے چمن زار اُس کے دل کو لبھا نہ پائے۔ اور اس کے لفظوں کے نشتر سے سفید سنگ مرمر پرکا رنگ گویا پھیکا پڑ گیا۔ بقول ساحر:
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
میری آنکھوں نے آگرہ کی زینت تاج محل تو نہیں دیکھا لیکن ہر صبح مجھے ایک ایسی عمارت کے سامنے ضرور کھڑا کر دیتی ہے جس کی دودھیا رنگت سے جب سورج کی کرنیں ٹکرائیں تو اِس یورپین اور اسلامی طرز تعمیر کےحسین امتزاج پر نظر ٹھہر سی جاتی ہے۔ دور سے دیکھنے پر سنگ مرمر کی سلوں سے مزین اِس ڈھانچے پر کسی روشن کتاب کا سا گمان ہوتا ہے۔ اس کے دامن میں موجود محراب اور اس میں جھولتے ترازو کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے کسی نے چاندی کی چھاپ میں نگینہ جڑ دیا ہو۔
اس کے احاطہ میں آنے والوں کا استقبال بیرونی دروازے پر گلاب کی کِھلی کِھلی کلیا ں کرتی ہیں۔ اس کے در سے گزرنے والوں کے کاندھے اس کی شان و شوکت کے بار سے جھک جاتے ہیں۔ اس عمارت میں داخل ہونے والے اس کی راہداریوں میں دبے پاؤں چلتےہیں کہ جوتوں کی کھٹ کھٹ توہین لگتی ہے۔ اس میں موجود کمروں کی ساخت سے دیوان خاص کا عکس اور اسکی تکونی شکل سے نئے زمانے کے زاویوں کا نقش جھلکتا ہے۔
درو دیوار کے خمار میں مبتلا افراد عدل کی آواز سننے کے بعد جب اپنے قرب و جوار میں نگاہ دوڑاتے ہیں تو ان کے سینے میں سفید عمارت کی تکونی ساخت خنجر کی طرح چبھتی ہے۔ ان کی آنکھیں رنگ پہچاننا بند کر دیتی ہیں اور سیاہ لباس والوں سے بھری یہ سفید عمارت بھی پھیکی پڑ جاتی ہے۔ دیو ہیکل دروازوں کی چرچراہٹ سے ان کو اپنے کان کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان اونچے دروازوں سے بونوں کا ہجوم جھوٹ سچ کے پلندوں کا بوجھ اٹھائے باہر کو دوڑنے لگتا ہے۔
ہر چمکتی شہ سونا نہیں ہوتی اور محبت کو نفرت میں بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ اس عمارت میں دبے پاؤں جانے والے تیز قدموں سے باہر نکلتے ہیں۔ ان کو اپنے پہلو میں ساتھ چلتے تر و تازہ پودے واپسی پر مرجھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ کشادہ کھڑکیوں سے آتی ہوا میں ان کا دم گھٹتا ہے۔ در و دیوار کی شان و شوکت گھن میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ہر گوشے سے فحکم بین الناس بالحق کے لبادے میں کیا گیا مذاق جھلکتا ہے۔
سب سے اونچے منصف کے کمرے سے انصاف کا تماشا دیکھنے کے بعد جب لوگ بھاگتے ہوئے باہر نکلتے ہیں تو کچھ دیر پہلے کھلی کلیاں مرجھا چکی ہوتی ہیں۔ عمارت کے سامنے معلق ترازو کےایک پلڑے میں کسی پاپوش کا گماں ہوتا ہے۔ جو آنکھیں ملنے کے بعد بھی نہیں جاتا۔ اس کے دامن میں کھڑی محراب قبر سی معلوم ہوتی ہے۔ روشن اور کھلی کتاب سی دکھنے والی عمارت مقبرہ نظر آتی ہے۔ جس کے احاطہ میں جانے کتنی ہی ممتاز بیگمیں دم توڑ چکی ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ سفید ہاتھی کی صورت میں نظر آتی ہے جس کے سینگ بائیس کڑوڑ لوگوں کے شکم میں کھبے ہوئے ہیں۔
کچھ لوگ اس منظر کا بار اٹھائے کبھی واپس نہیں لوٹتے کچھ اس سیاہی کو روشنی سمجھ کر تسلیم کر لیتے ہیں اور کچھ ہمارے طرح بندر اور انسان کے درمیان لٹکتے رہتے ہیں روز دبے پاؤں جاتے ہیں اور دوڑتے ہوئےواپس لوٹتے ہیں۔
عرفان ستار کے اشعار پر اس ان کہی کہانی کا اختتام کیجیے۔ ۔ ۔
کہیں سے نقش بجھ گئے، کہیں سے رنگ اڑ گئے
یہ دل ترے خیال کو سنبھال کیوں نہیں رہا
وہ زلف زلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی
وہ خواب خواب سلسلہ بحال کیوں نہیں رہا