پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دنیا کے ہر ملک کی ضرورت ہے اور اس کا تمام سپر پاورز میں بھی ایک کلیدی کردار ہوتا ہے جس کے بغیر وہ ملک سپر پاور نہیں رہ سکتا۔
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ امریکا پینٹاگون کے بغیر نہیں چل سکتا کیوں کہ ملک کو صرف سیاست دان نہیں چلا رہے ہوتے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب کرکے کوئی حکومت چل نہیں سکتی۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باتیں کرنا جعلی مقبولیت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے لیکن سب نے ماضی سے بہت سبق سیکھ لیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا ملک میں کئی دہائیوں سے جاری سنگین بحران ختم نہیں ہو رہا۔
انہوں نے کہا کہ سب لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن گزشتہ 26 سالوں میں سنہ 1997 سے سنہ 2023 تک نواز شریف کو صرف ایک سال 2013 کا الیکشن لڑنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پر 70 سال سے ملک میں خرابیاں پیدا کرنے کا الزام ہے لیکن 27 سالوں میں صرف ایک ہی الیکشن لڑنے کا موقع دیا گیا۔
عمران خان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا موقع کیوں نہیں دینا چاہیے، میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دینا چاہیے۔
’پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر بھی حکومت بن سکتی ہے ‘
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر حکومت بن سکتی ہے اور عوامی حکومت وہی ہوتی ہے جو عوام کی رائے سے بنی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر الیکشن سے پہلے ایک فضا موجود ہوتی ہے اور آج جو فضا نواز شریف کے وزیراعظم بننے کی بنی ہوئی ہے ہے اس کی اصل وجوہات میں نواز شریف کے گزشتہ ادوار کی کارکردگی اور عمران خان کی نالائقی شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کے ممبر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے لیے کی جانے والی تیاریوں میں ن لیگ دیگر تمام جماعتوں سے بہت آگے ہے، منشور کمیٹی بنائی گئی جس نے تفصیل سے کام کیا اور پارٹی منشور طے کیا، پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں ہر پارٹی ٹکٹ امیدوار کا انٹرویو کیا گیا۔
’پارٹی میں نوجوانوں کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے‘
انہوں نے بتایا کہ بورڈ میں قائد نواز شریف، پارٹی صدر شہباز شریف، چیف آرگنائزر مریم نواز، چیئرمین الیکشن سیل اسحاق ڈار سمیت دیگر سینیئر قیادت موجود ہوتی ہے جو ایک امیدوار میں پارٹی کے ساتھ اس کی وابستگی، وہ کن عہدوں پر رہا ہے اور سابقہ انتخابی عمل میں اس کی کیا پوزیشن رہی جیسی باتیں دیکھتے ہیں تاہم نئے چہروں اور نوجوانوں کو بھی اس حوالے سے ترجیح دی بشرطیکہ وہ متعلقہ حلقوں سے الیکشن لڑنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔
مزید پڑھیں
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں کو مختلف ڈویژن کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا جنہوں نے حلقے میں سروے کر کے رپورٹ پارلیمانی بورڈ کے سامنے پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ ٹکٹ کے لیے کوئی پارٹی فنڈ نہیں لیا جا رہا صرف صوبائی قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی فیس لی جارہی ہے جو بالترتیب ایک لاکھ روپے اور 2 لاکھ روپے ہے اور اس سے کوئی امیدوار مستثنیٰ نہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ والا بیانیہ تبدیل نہیں کیا گیا اور پارٹی کا آج بھی مؤقف ہے کہ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کے بعد عوام کے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو حکومت بنانے کی اجازت دینی چاہیے، سیاسی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے پہلے بھی کام کر رہے تھے آج بھی کر رہے ہیں، بیانیہ ’ووٹ کے عزت دو‘ ملک کی ضرورت ہے۔
’ڈیل اور این آر او جسی اصطلاحات کچھ سیاستدانوں کی ایجاد ہیں‘
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ہماری سیاست میں کچھ الفاظ سیاست دانوں نے ایجاد کیے ہیں جیسا کہ ڈیل، این آر او وغیرہ، یہ وہ سیاست دان کرتے ہیں کہ جن کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کوئی کارکردگی نہیں ہوتی، لفاظی سیاست میں ایک فیشن بن گیا ہے اور سیاسی رہنما جلسوں میں کارکردگی بتانے کی بجائے اسے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں پر بننے والے مقدمات کے حوالے سے کہا کہ میں اس کے حق میں نہیں ہوں کہ کسی کو غلط سزا دی جائے اور کوئی جھوٹا مقدمہ بنایا جائے، پاکستان کے عدالتی نظام میں بہت سقم موجود ہیں، کچھ سالوں میں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا لیکن میں نے آج تک کسی ایک ایسے شخص کا جنازہ نہیں پڑھا کہ جس کو پھانسی کی سزا ہوئی ہو۔
’اب عدالتیں ریلیف نہیں انصاف دے رہی ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ہمارے پارٹی رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے، نواز شریف پر الزام پاناما کا لگایا گیا اور سزا اقامہ پر دی گئی، رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا، اب عدالتوں سے ریلیف نہیں مل رہا انصاف مل رہا ہے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ سنہ 2014 میں دھرنوں کے دوران ایس پی سمیت پولیس افسران پر تشدد کیا گیا، جب پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ کا دروازہ توڑا گیا، پی ٹی آئی کارکنان اندر داخل ہوئے تو پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر چند فوجی جوان موجود تھے لیکن وردی کی عزت کے باعث اس ایک جوان کو کسی نے انگلی نہیں لگائی، پتھر نہیں مارا لیکن پھر 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا اور شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کیا گیا۔
’9 مئی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو عمران خان نے بنایا‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بیرونی اور اندرونی طور پر محفوظ تو پاک فوج کو رکھنا ہے، جوان اور افسران شہید ہو رہے ہیں، 9 مئی ایک دن نہیں تھا بلکہ عمران خان نے کافی عرصے سے لوگوں کا یہ ایک مائنڈ سیٹ بنادیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث تمام افراد کو سخت سزائیں ہونی چاہییں۔
’اسلام آباد کے دیہی علاقے مسائل کا شکار ہیں‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ایک انتہائی خوبصورت شہر ہے، اس کا سیکٹرل ایریا ترقی یافتہ ہے، صفائی ستھرائی ہے، سڑکیں اچھی ہیں لیکن ساتھ ہی میں اسلام آباد کی آدھی آبادی پر مشتمل دیہی علاقوں کے مسائل وہی ہیں جو پاکستان کے دیگر دیہی علاقوں کے ہیں.
انہوں نے شہری اور دیہی علاقوں کے فرق کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دیہی علاقوں میں گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور پینے کے صاف پانی کا بھی مسئلہ ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ نواز شریف کے سنہ 2013 کے دور میں 150 دیہاتوں کو سوئی گیس کنکشن فراہم کیے گئے تھے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد کے متاثرین کے مسائل ہیں، تعلیم کے مسائل ہیں، صحت کے شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے، صرف ایک پمز بڑا سرکاری اسپتال ہے جبکہ اس طرح کے 3 مزید اسپتال بننے چاہییں۔