حماس اور اسرائیل کے درمیان 7اکتوبر کو جنگ کا آغاز ہوا تو لوگوں نے تربوز کی تصاویر یا ایموجیز کے ذریعے فلسطینیوں کی حمایت شروع کردی۔
تربوز اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان تعلق بنیادی طور پر علامتی ہے۔ اس نے سوشل میڈیا اور مختلف تحریکوں کے ذریعے توجہ حاصل کی ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ تربوز اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان تعلق نیا نہیں بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔
تربوز غزہ اور مغربی کنارے میں اگائے جاتے ہیں اور فلسطینی پرچم کی طرح یہ بھی سرخ، سفید، سیاہ اور سبز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اپنی قومی شناخت کی نمائندگی اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی کے خلاف احتجاج کے لیے تربوز کا استعمال کرتے ہیں۔
اسرائیلی جبر کے خلاف سلیمان منصور، سمیع بخاری، اور بیسان عرفات جیسے آرٹسٹس نے تربوز کو نہایت منفرد اور تخلیقی انداز میں اپنے فن پاروں میں استعمال کیا ہے۔
اس حوالے سے غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے آرٹسٹ سلیمان منصور نے کہا کہ اسرائیل نے 80ء کی دہائی میں فلسطینی آرٹسٹس پر اپنے فن پاروں کی نمائش پر عائد کی تھی، اسی دوران ایک اسرائیلی حکومتی اہلکار نے 2 آرڈر جاری کیے تھے۔
پہلے آرڈر کے مطابق فلسطینی آرٹسٹس اسرائیلی حکام سے اجازت لیے بغیر اپنے فن پاروں کی نمائش نہیں کرسکیں گے۔ دوسرے آرڈر کے مطابق فلسطینی آرٹسٹس پر سرخ، سبز، سیاہ اور سفید رنگوں کے استعمال پر پابندی ہوگی۔
سلیمان منصور نے کہا کہ اس وقت ایک فلسطینی آرٹسٹ نے سوال کیا کہ اگر وہ ان رنگوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک پھول بناتا ہے تو کیا ہوگا، جس پر انہیں اسرائیلی حکام کی جانب سے جواب ملا کہ آپ پھول بنائیں یا تربوز، ہم وہ ضبط کرلیں گے۔
سلیمان منصور نے کہا کہ اس وقت وہ اپنی پینٹنگز کے ذریعے سیاست کے بجائے فلسطینی ثقافت کو اجاگر کرتے تھے مگر اس کے باوجود انہیں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور دوران حراست انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
سلیمان منصور نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے تربوز کی پینٹنگز بنانا شروع کر دیں، جس کا اثر یہ ہوا کہ فلسطینی پرچم لہرانے اور اس کے رنگوں کے استعمال پر پابندی کے باوجود تربوز فلسطینی شناخت اور مزاحمت کا استعارہ بن گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے خاتمے تک مزاحمت کی علامت بنا رہے گا۔