سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری فیصلہ 4 صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 5 صفحات پر مشتمل علیحدہ نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ ’دی گئی آبزویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی، بانی پی ٹی آئی ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5(3) بی کے جرم کا ارتکاب ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔ ملزمان کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جرم کے ارتکاب کے لیے مزید انکوائری کے حوالے سے مناسب شواہد ہیں۔جب کہ مزید تحقیقات کا فیصلہ ٹرائل کورٹ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی کر سکتی ہے۔
اس سے قبل سائفر ضمانت کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں 10، دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظورکر لی تھی۔
سائفر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔
درخواست ضمانت پر حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری
عدالت نے وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر بھی آج ہی دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔
سائفر کیس میں وزارت داخلہ کے سیکریٹری شکایت کنندہ ہیں
بانی چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی آر 17 ماہ کی تاخیر سے درج ہوئی۔ سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے ایف آئی آر درج کروائی۔ پہلے فارن فنڈنگ کیس بنانے کی کوشش ناکام ہوئی، توشہ خانہ کیس میں سزا معطل ہوئی، اسی شام سائفر میں گرفتاری ڈال دی گئی۔ سائفر کیس میں طلبی کے نوٹس 7 ماہ تک لاہور ہائیکورٹ سے معطل رہے، ایف آئی اے نے حکم امتناع کیخلاف کوئی کوشش نہیں کی۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ حکم امتناع تو آپ نے لے رکھا تھا پھر تاخیر تو آپ کے سبب ہوئی؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ طلبی کے نوٹسز میں کوئی ٹھوس چیز تھی ہی نہیں اس لیے معطل ہوئے، سائفر کیس میں وزارت داخلہ کے سیکریٹری شکایت کنندہ ہیں۔ 7 ماہ تک ایف آئی اے نے خاموشی اختیار کی، توشہ خانہ میں ضمانت ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔
سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں گرفتار کرنے کی 40 مرتبہ کوشش کی گئی
سلمان صفدر نے مزید کہا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں گرفتار کرنے کی 40 مرتبہ کوشش کی گئی۔ ملک بھر کے دیگر مقدمات اسلام آباد کے 40 کیسز سے الگ ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ آڈیو لیکس کے بعد وفاقی حکومت کی ہدایت پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی تھی۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ الزام لگایا گیا تھا کہ 28مارچ 2022 کو بنی گالہ اجلاس میں سائفر کے غلط استعمال کی سازش ہوئی، ایف آئی آر میں سابق وزیراعظم پر سائفر کی کاپی تحویل میں لیکر واپس نہ کرنے کا بھی الزام ہے۔
ایف آئی آر میں 4 ملزمان نامزد ہیں لیکن ٹرائل صرف 2 کا ہو رہا ہے
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ایک الزام پورے سائفر سسٹم کی سیکیورٹی رسک پر ڈالنے کا بھی ہے، اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین تفتیش میں ہونا تھا۔ ایف آئی آر میں 4 ملزمان نامزد ہیں لیکن ٹرائل صرف 2 کا ہو رہا ہے۔ ایف آئی آر میں اعظم خان پر سائفر کے میٹنگ منٹس اور اس کے مندرجات خلاف حقائق تحریر کرنے کا الزام ہے، ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ افواج پاکستان کے حوالے سے ہے جو ملکی دفاع سے جڑا ہے
سلمان صفدر نے کہا کہ ایف آئی آر میں کردار کے تعین کے باوجود اعظم خان کو گرفتار کیا گیا نہ اسد عمر کو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کو کیسے معلوم ہوا کہ بنی گالہ میں میٹنگ ہوئی تھی؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ایف آئی اے ہی بتا سکتا ہے۔ سائفر وزارت خارجہ سے آیا، پراسیکیوشن کے مطابق ان کا سیکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا گیا، وزارت خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی، سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے بطور وزیر داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا دائرہ وسیع کرکے سابق وزیراعظم پر لاگو کیا گیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ افواج پاکستان کے حوالے سے ہے جو ملکی دفاع سے جڑا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائفر کا مقدمہ بنا ہے۔ ماضی میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ سابق فوجی افسران پر لگا جنہوں نے حساس معلومات دشمن ممالک کو دیں۔
وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ پراسیکیوشن کا کیا کہنا ہے کہ سائفر کس کیساتھ شیئر کیا گیا تھا؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا۔ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ کو بھیجا گیا تھا۔ سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں۔
سابق وزیراعظم کے خلاف سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں، ڈپلومیٹک معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
سلمان صفدر نے بتایا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہوسکتیں۔ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں، سابق وزیراعظم کے خلاف سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔
سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ایئر تو کیا ہی گیا ہے
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ایئر تو کیا ہی گیا ہے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکریٹری موصول ہوا تھا، جس میٹنگ میں سائفر کا الزام ہے وہ 28 کو ہوئی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ 27 تاریخ کو ہوا تھا۔
اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔ سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔
وزیرخارجہ سیانا تھا اس نے وزیراعظم کو آگے کر دیا، چیف جسٹس
جسٹس سردار طارق مسعود نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن سن کر ریمارکس دیے کہ وزیرخارجہ سیانا تھا اس نے وزیراعظم کو آگے کر دیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن آنے والے ہیں اور بانی پی ٹی آئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں، یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟ دفتر خارجہ سائفر کسی کو بھیج ہی نہیں سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو غلطی دفتر خارجہ سے ہوئی ہے۔
ایک طرف کہتے ہیں سائفر پبلک کیا، ساتھ ہی کہتے ہیں ان کیمرا ٹرائل ہونا چاہیے
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ’کیا وزیراعظم کے سیکریٹری بھی سائفر کی کاپی پڑھ سکتے ہیں؟ عدالت نے سلمان صفدر کو اعظم خان کا بیان پڑھنے کی ہدایت کی۔ سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے جلسے میں کہا تھا میرے پاس یہ خط سازش کا ثبوت ہے، جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ ایک طرف کہتے ہیں سائفر پبلک کیا، ساتھ ہی کہتے ہیں ان کیمرا ٹرائل ہونا چاہیے۔
اعظم خان 2 ماہ لاپتا رہے، یہ اغواء برائے بیان کا واقعہ ہے
سلمان صفدر نے کہا کہ دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے، اعظم خان کے اہلخانہ نے ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان 2 ماہ لاپتا رہے، یہ اغواء برائے بیان کا واقعہ ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس نے پوچھا کہ اغواء برائے تاوان تو سنا تھا، اغواء برائے بیان کیا ہوتا ہے؟ سلمان صفدر نے کہا کہ میرے لیے سب سے آسان الفاظ اغواء برائے بیان کے ہی تھے۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ اغواء برائے بیان بھی اصطلاح ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ’کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں‘؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے، تفتیشی افسر نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیراعظم کےخلاف بیان دے دیا۔ اعظم خان نے بیان دیا کہ سابق وزیراعظم سے سائفر مانگا تو انہوں نے کہا گم گیا ہے، سابق وزیراعظم نے ملٹری سیکریٹری کو بھی سائفر تلاش کرنے کا کہا۔
اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی۔ سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے کہا ان کی موجودگی میں ہی بنی گالہ میں وزارت خارجہ نے بریفننگ دی۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے پوچھا کہ کیا سیکریٹری خارجہ ملزم ہیں یا گواہ؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ گواہ ہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ نے 17 ماہ تک سائفر کی کاپی وزیراعظم سے نہیں مانگی، اعظم خان کے مطابق عمران خان عسکری قیادت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے، اعظم خان نے کہا بنی گالہ میٹنگ کے بعد سائفر کو پبلک میں لہرانے کا فیصلہ ہوا، جس جلسے میں کاغذ لہرایا گیا وہ میٹنگ سے ایک دن پہلے ہوچکا تھا۔ سلمان صفدر نے سابق سفیر اسد مجید کا بیان بھی پڑھ کر سنایا۔
سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سابق وزیراعظم کی 40 مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری منظور ہوچکی ہے۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کیخلاف ایک شہر میں 40 مقدمات درج نہیں ہوئے۔ جس انداز میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مقدمات درج کر رہے ہیں اسے رکنا چاہیے۔ سابق وزیر اعظم ریاستی دشمن نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے خط کے مندرجات کسی سے شیئر نہیں کیے۔ امریکی سفیر کو بلا کر کیا گیا احتجاج غلط ہے یا پھر سائفر کا مقدمہ؟
سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے بھی سابق وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والی قومی سلامتی کونسل کے نکات کی توثیق کی تھی۔
شاہ محمود قریشی 10 دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہئوے کہ شاہ محمود قریشی پر نہ سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ ہی کسی سے شیئر کرنے کا۔ شاہ محمود قریشی پر واحد الزام تقریر کا ہے جس کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے۔ شاہ محمود قریشی 10 دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔
انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ’کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں؟‘ علی بخاری نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی آج کاغذات جمع کرائیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔
جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے
پراسیکیویٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کردیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفتر خارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیا نکلا ہے؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ حساس دستاویزات کو ہینڈل کرنے کے لیے رولز موجود ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ رولز کی کتاب کہاں ہیں؟۔ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے بتایا کہ رولز خفیہ ہیں اس لیے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہوں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رولز کیسے خفیہ ہوسکتے ہیں؟ اس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے بتایا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکار کے پاس ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا۔
سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا تو سائفر نہیں رہا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا سیکریٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی؟ تفتیشی افسر نے سیکریٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے؟
رضوان عباسی نے بتایا کہ سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تو فیصلہ ہی کر دیا ہے ماشااللہ۔ اب خالی رسی ہی رہ گئی ہے۔ یہ بتائیں کہ سائفر دستیاب نہیں تھا تو سلامتی کمیٹی کے 2 اجلاس کیسے ہوئے۔ شہباز شریف نے کیوں نہیں پوچھا کہ وہ سائفر تو موجود ہی نہیں؟
عمران خان بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں، اگر وہ باہر آ جائیں گے تو کیا ہوگا؟
پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ سیکریٹری خارجہ کا بیان ہے کہ انہوں نے اجلاس میں اپنی ماسٹر کاپی پیش کی۔ جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس دیے کہ 8 فروری کو انتخابات ہیں، عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں، اگر وہ باہر آ جائیں گے تو کیا ہوگا۔ آپ 1970، 1977 کو کیوں دہرانا چاہتے ہیں؟ آپ کو اس درخواست ضمانت کی مخالفت کے لیے کہا گیا ہے؟ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفتر خارجہ میں تھی۔
کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں؟
آٹھ فروری کو انتخابات ہیں اور عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں، اگر وہ باہر آ جائیں گے تو کیا ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟ جسٹس سردار طارق نے پوچھا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا، قائم مقام چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟
شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے؟
رضوان عباسی نے بتایا کہ اعظم خان کے مطابق پی ٹی آئی کا ان پر دباؤ تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کیا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے؟ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا؟ رضوان عباسی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔ قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ رضوان عباسی نے بتایا کہ ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔
سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، سائفر کے حوالے سے قانون دکھائیں۔ سائفر معاملے پر غیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں اس کے مطابق تو غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے؟ کیا نگران حکومت نے آپ کو (پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی) ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے؟ ہر دور میں سیاسی رہنماؤں کیساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا؟ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت بانی چئیرمین پی ٹی آئی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیراعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔
سائفر ضمانت کیس میں سپریم کورٹ نے 10، دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کرلی ہے۔