ملکہ ترنم نور جہاں کے انداز اور گیٹ اپ میں ٹی وی پر پرفارم کرنا ایک مشکل اور دشوار کام تھا۔ اب یہ ایسا بھی نہیں تھا کہ آپ خاموشی کے ساتھ یہ کام کر دیں اور ملکہ ترنم نور جہاں کو کانوں کان خبر نہ ہو ۔ مانا کہ دور 80 اور 90 کی دہائی کا تھا جب دورِ حاضر کی طرح سوشل میڈیا نہیں تھا لیکن ملک بھر میں اکلوتا ٹی وی چینل تھا جس میں اگر کوئی ایک جھلک دکھا دے تو راتوں رات اسٹار بن جاتا۔ اب ایسے میں ملکہ ترنم نور جہاں کی پیروڈی پیش کرنے پر بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ 1986 کا سال تھا۔ انور مقصود نے کامیڈی سے بھرپور پروگرام’ شوٹائم ‘ کو لکھا تھا۔ جس میں معین اختر، بشریٰ انصاری ، لطیف کپاڈیہ اور ارشد محمود شامل تھے۔ مزاحیہ خاکوں پر مبنی یہ شو تھا جس میں بشریٰ انصاری مختلف گلوکاراؤں کی پیروڈی بھی کرتیں۔
ہدایتکار قیصر فاروق کے سامنے یہ ٹاسک تھا کہ انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کی پیروڈی بشریٰ انصاری سے کرانی تھی اور سب کو یہ خدشہ تھا کہ اگر ملکہ ترنم نور جہاں کے علم میں آیا کہ ان کا مذاق اڑایا گیا ہے تو کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ پی ٹی وی حکام کو بھی ڈر تھا کہ ملکہ ترنم نور جہاں خفا ہو کر یہی اعلان نہ کر دیں کہ وہ آئندہ سے پی ٹی وی کے کسی پروگرام کے لیے دستیاب نہیں ہوں گی اور یہ نقصان ٹی وی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کی اس ناراضگی کے خدشات کے پیچھے ایک چھوٹا سا واقعہ تھا۔ وہ کچھ یوں کہ جب انور مقصود نے اپنا اسٹیج شو ‘ سلور جوبلی’ پیش کیا تو اس میں بینجمن سسٹرز کے ذریعے انہوں نے میڈم کے کچھ پرانے سدا بہار گیت بھی پیش کیے۔ تین بہنوں کی اس مثلث یعنی بینجمن سسٹرز نے دل کو چھو لینے والی گلوکاری کی، تینوں ایک ہی سر اور لے میں نغمہ سرائی کرتیں۔ مشہور تو یہ بھی تھا کہ ملکہ ترنم نور جہاں کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کے گانے پھر سے کوئی اور گنگنائے۔ بینجمن سسٹرز جب یہ گیت گاتیں تو کسی نے ملکہ ترنم نور جہاں کی توجہ اس جانب دلائی تو انہوں نے ردعمل دیا اگر ان کے گیت گا کر بینجمن سسٹرز نام کمانا چاہتی ہیں تو کمانے دیں۔ کیا ہوا اگر کسی کو شہرت مل رہی ہے تو ملنے دی جائے۔
اب اسی تناظر میں خود بشریٰ انصاری بھی تذبذب کا شکار تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ملکہ ترنم ناراض ہوں۔ لیکن انور مقصود کا اصرار تھا کہ وہ آئٹم ضرور ہوگا جس میں بشریٰ انصاری نے ملکہ ترنم نور جہاں کا روپ دھار کر ان کے مشہور گیت ‘کلی کلی منڈلائے بھنورا’ کی پیروڈی پیش کرنی تھی۔ جس کا مکھڑا تھا ‘سکینڈ چینل کھل جائے ترا سب کا بھلا ہوجائے۔’
بشریٰ انصاری کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ملکہ ترنم نور جہاں کے دبدبے اور جاہ و جلال سے کچھ ڈری سہمی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے بچنے سے بہتر ہے کہ ملکہ ترنم نورجہاں سے پیشگی اجازت لے لی جائے تاکہ کوئی بدمزگی نہ ہو۔ انور مقصود نے ملکہ ترنم نور جہاں سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا اور انہیں ساری صورتحال بتائی تو سبھی کو خو ش گوار حیر ت ہوئی کہ انہوں نے بغیر کسی حجت تمام کے ہنسی خوشی اپنی رضامندی ظاہر کی۔
اب سارا کمال بشریٰ انصاری کا تھا جنہوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے انداز گائیکی، ان کی ساڑی، اور بالوں کے انداز کی کمال مہارت سے ہو بہو نقل کی۔ بلکہ دور سے دیکھنے پر یہی گمان ہوتا جیسے ملکہ ترنم نور جہاں ہی کھڑی ہو کر گیت گا رہی ہوں ۔ پی ٹی وی کے ‘شو ٹائم’ میں جب یہ پیروڈی گیت نشر ہوا تو ہر جانب بشریٰ انصاری کی واہ واہ ہوئی۔ بہرحال ان کے دل میں پھر یہ وہم تھا کہ پتا نہیں ملکہ ترنم نور جہاں کا کیا ردعمل ہوگا۔
ایسے میں ایک تقریب میں آخر کار بشریٰ انصاری اور ملکہ ترنم نور جہاں کا آمنا سامنا ہو ہی گیا۔ بشریٰ انصاری ڈرتے ڈرتے ان تک پہنچیں تو ملکہ ترنم نور جہاں بڑے پرتپاک انداز میں ان سے ملیں۔ خلاف توقع ملکہ ترنم نور جہاں نے بشریٰ انصاری کی گلوکاری کی نہ صرف تعریف کی بلکہ اس بات کو بھی خاصا سراہا کہ کیا زبردست انداز میں بشریٰ انصاری نے ان کی نقل اتاری۔
ملکہ ترنم نور جہاں کی اس پذیرائی نے جیسے بشریٰ انصاری کا حوصلہ اور بڑھا دیا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ملکہ ترنم کی صاحبزادیوں کو بھی بشریٰ انصاری کی پیروڈی پسند آئی تھی۔ بشریٰ انصاری کے لیے نور جہاں کا یہ روپ چونکا دینے والا تھا کیونکہ انہیں یہ ڈر ستا رہا تھا کہ کہیں میڈم انہیں ڈانٹ نہ دیں۔ بلکہ اس کے بعد تو نور جہاں اور بشریٰ انصاری کی کسی بھی تقریب میں ملاقات ہوتی تو ملکہ ترنم آس پاس بیٹھے دیگر اداکاروں، موسیقاروں یا پھر ہدایتکاروں کی موجودگی میں بشریٰ انصاری سے فرمائش کرتیں کہ وہ ان کی نقل اتار کر دکھائیں۔
بشریٰ انصاری نے ملکہ ترنم کے صرف اس گانے کی پیروڈی ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے میڈم کے دیگر گانوں کو اوریجنل انداز میں بھی ٹی وی پر پیش کیا۔ نور جہاں جن کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ سخت گیر اور غصیلے مزاج والی گلوکارہ ہیں، اس ایک معمولی سے واقعے کے بعد ہر ایک پر ان کی شخصیت کا ایک نیا روپ عیاں ہوا کہ وہ دوسروں کی حوصلہ افزائی اور اپنی نقل اتارنے والوں کے ساتھ کوئی جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرتی تھیں اور ان کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں وہ مفروضات ہی ہیں۔