بالآخر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر مقدمے میں رہائی کا پروانہ مل گیا جس سے شاہ محمود قریشی تو جیل سے باہر آ جائیں گے لیکن عمران خان ’القادر ٹرسٹ‘ مقدمے میں بھی گرفتار ہیں اس لیے ان کی اڈیالہ جیل سے رہائی تاحال ممکن نظر نہیں آتی۔ پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی خواہش ہے کہ عمران خان بطور بانی چیئرمین اگر اپنی نااہلی کی وجہ سے انتخاب نہیں لڑ سکتے تو الیکشن مہم میں حصہ لیں۔
مزید پڑھیں
سائفر ضمانت کیس میں، مقدمے کے میرٹس پر بات
ضمانت کے کیسسز میں عام طور پر مقدمے کے میرٹس پر بات نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے ٹرائل عدالت میں زیر التواء مقدمے پر فرق پڑ سکتا ہے لیکن جمعہ کو عمران خان کی ضمانت کے مقدمے میں 3 رکنی بینچ نے مقدمے کے میرٹس پر بات کی لیکن تحریری فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز سے اس مقدمے کا ٹرائل متاثر نہیں ہوگا۔
قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سائفر مقدمے میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتوں پر سماعت کی تو کچھ نقاط پر اختلاف کے باوجود تینوں جج صاحبان ایک بات پر متفق نظر آئے کہ جب سائفر ڈی کوڈ ہو گیا تو وہ سائفر نہیں رہا۔
مقدمے میں تینوں ججز کے ریمارکس
مقدمہ میں قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس نہیں چلتے، آپ کا چل رہا ہے تو آپ کو اعتراض ہے؟
جب سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وکیل نے عدالت کے سامنے اعتراض اٹھایا کہ پرانی فرد جرم پر ہی سائفر مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے، ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک ٹرائل مکمل ہوجائے شام 6 بجے تک ٹرائل چلتا ہی رہے۔عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔
اس پر قائم مقام چیف جسٹس بولے کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا ہے تو آپ کو اعتراض ہے، عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں، تو قائم مقام چیف جسٹس بولے کہ سپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے۔آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟
پھر جب عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے فرد جرم کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے تو قائم مقام چیف جسٹس بولےجو فرد جرم آپ نے چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے اور نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اسی طرح جب عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کی جانب سے طلبی کے نوٹسز 7 ماہ تک معطل رکھے اور ایف آئی اے نے اس کو چیلنج نہیں کیا، تو قائم مقام چیف جسٹس بولے حکم امتناعی تو آپ نے لے رکھا تھا پھر تاخیر تو آپ کے سبب ہوئی۔
جب عمران خان کے وکیل نے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیان کے بارے میں کہا کہ انہیں اغواء برائے بیان کیا گیا تھا تو قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اغواء برائے تاوان تو سنا تھا اغواء برائے بیان کیا ہوتا ہے۔ تاہم قائم مقام چیف جسٹس اس بات پر متفق نظر آئے کہ ڈی کوڈ ہونے کے بعد سائفر نہیں رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس
جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ پاکستانی نظام حکومت میں ان دیکھی قوتوں کے مخالف ہیں اور انہوں نے تاریخی حوالوں کے ذریعے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کے نتائج مثبت نہیں ہوتے۔
اس حوالے سے انہوں نے ریمارکس دیے کہ 8 فروری کو انتخابات ہیں اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنماء اگر جیل سے باہر آ جاتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا، جسٹس اطہر من اللہ نے سائفر مقدمے میں پراسیکیوشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں 2018، 1977 یا 1970 جیسے حالات بنانا چاہتے ہیں؟
جب سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ 28مارچ 2022 کو بنی گالہ اجلاس میں سائفر کے غلط استعمال کی سازش ہوئی تو جسٹس اطہر من اللہ بولے ایف آئی اے کو کیسے معلوم ہوا کہ بنی گالہ میں میٹنگ ہوئی تھی؟۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سائفر ہمیشہ کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے۔
دفتر خارجہ سائفر کسی کو بھیج ہی نہیں سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو غلطی دفتر خارجہ سے ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا کہ سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، الیکشن آنے والے ہیں اور بانی پی ٹی آئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوشن سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟ جب عمران خان کے وکیل نے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیان کے بارے میں کہا کہ انہیں اغواء برائے بیان کیا گیا تھا تو جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آیا سیکرٹری خارجہ نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی؟ جس پر پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے بتایا کہ کابنیہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری خارجہ نے یہ بات کہی تھی، تو جسٹس اطہر من اللہ بولے سیکرٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں نہیں آگاہ کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس
جسٹس منصور علی شاہ بھی اس بات سے متفق نظر آئے کے ڈی کوڈ ہونے کے بعد سائفر، سائفر نہیں رہا اور انہوں نے پراسیکیوشن سے پوچھا کہ اس طرح کی دستاویزات کو خفیہ رکھنے کے لیے کون سے قوانین ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ وہ قوانین بھی خفیہ ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے زور دے کر پوچھا کہ سائفر سے غیر ملکی طاقتوں کو کیسے فائدہ ملا، تاہم وہ پراسیکیوٹر کے جواب سے مطمئن نہ ہو پائے اور کہا کہ یہ مفروضے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات خراب ہونے کے باعث پاکستان کے دشمن ممالک کو موقع ملا۔
اس کے جواب میں پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس میڈیا کلپنگز اور ریکارڈنگز ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ سائفر سے متعلق قوانین کے بارے میں پراسکیوٹر کی رائے سے بالکل بھی مطمئن نہ ہوئے اور یہ بھی کہا کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں۔