عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ضمانت پر رہائی کے حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں تقریباً سب ہی وزرائے اعظم پابند سلاسل رہے اور نااہل قرار دیے گئے جب کہ مخالف رائے رکھنے والے سیاستدانوں کو ناصرف قید کیا گیا بلکہ ان کو انتخابی مہم بھی چلانے نہیں دی گئی۔ 2018 کے انتحابات میں بھی یہی عمل دہرایا گیا جبکہ آئین توڑنے والے آمروں نے ایک دن بھی جیل میں نہیں گزارا۔
مزید پڑھیں
پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کے بارے میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ ملزمان پر ایسے الزامات نہیں جو معاشرے کے لیے خطرہ ہوں جیسا کہ قتل اور ریپ وغیرہ۔
سائفر مقدمے کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور ٹرائل چل رہا ہے جس کا سارا دارومدار دستاویزی ثبوتوں پر ہے۔ اس لیے ملزمان کی تحویل بے فائدہ ہے۔ انتخابات کے دوران ملزمان کی رہائی سے حقیقی انتخابی عمل وقوع پذیر ہو گا اور عوام کو صحیح معنوں میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملے گا۔
ضمانت مسترد کرنے کے لیے کوئی ضروری وجوہات موجود نہیں ہیں۔ عوامی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ ایسے امیدواران جو کہ انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں کیا ان کو پابند سلاسل رکھا جائے اور کیا رجسٹرڈ ووٹرز کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت ہے؟
انہوں نے لکھا کہ کیا ایسی صورت میں ضمانت پر قانون کے مطابق رہائی دینی چاہیے یا اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ملزم مقدمے کے ٹرائل سے راہ فرار اختیار کرے گا اور دوبارہ سے اسی جرم کا ارتکاب کرے گا جو معاشرے کے لیے ممکنہ خطرہ ہو سکتا ہے؟۔
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اس انتخابی عمل کے شراکت داروں کے تحفظات کو ملحوظِ خاطر رکھنا پڑے گا اور پاکستان کی گزشتہ 7 دہائیوں کی انتخابی تاریخ کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فرض ہے کہ ایسا انتخابی ماحول پیدا کیا جائے جس میں تمام امیدواروں کو مسابقت کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ اگر ایک شخص انتخابی عمل میں حصہ لینا چاہتا ہے یا اس کی جماعت کے لیے اس کی شمولیت ضروری ہے تو ایسے شخص کو انتخابات کے دوران ضمانت پر رہائی ملنی چاہیے۔