گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے اپنے’ایکس‘ اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا۔ یہ بارہ برس قبل بیس دسمبر دو ہزار گیارہ کو سردار عطااللہ مینگل اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات کے بعد، میڈیا سے گفتگو پر مبنی ویڈیو کلپ تھا۔ بزرگ سردار کے پہلو میں میاں نواز شریف کھڑے تھے۔ اس روز بزرگ سردار نے بڑے عرصہ بعد اس قدر کھل کر باتیں کیں۔ ان کی کچھ باتیں ملکی میڈیا میں رپورٹ ہوئیں اور کچھ صرف غیرملکی میڈیا میں۔
سردار عطااللہ مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نوجوان فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ ایک ایسے ملک کا حصہ نہیں بنیں گے، جہاں انہیں تحفے میں روز مسخ شدہ لاشیں ملتی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے، یہ ذمہ داری میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر عائد ہوتی ہے کہ جتنا جلد ہوسکے، پہلے اس گتھی کو سلجھائیں، اس کے بعد بلوچستان کے ان نوجوانوں سے بات کریں جو پہاڑوں پر ہیں۔
بزرگ سردار نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں، بلوچستان میں لوگوں کو صرف پنجابی ہونے کی وجہ سے مارا جاتا ہے۔ ان میں نائی، دھوبی اور ڈاکٹر شامل ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ برا فعل ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کوئی شریف آدمی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا۔ مگر انسان تو وہ بھی ایسے ہیں جیسے کراچی والے، کبھی دیکھا کہ کراچی میں فوج نے غصے میں آکر لوگوں کو اٹھالیا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی ہوں؟
’وہ مجھے پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے۔ اگر وہ ایسا نہیں سمجھتے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ فیصلہ میں نے کیا ہے نہ بلوچستان کے عوام نے۔ انھوں نے خود میرے لیے فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ میرے سر آنکھوں پر۔۔۔۔۔ اس سارے دھندے میں بلوچستان کو پوائنٹ ‘آف نو ریٹرن پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اب میں کتنا بھی چاہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ میرے بس میں نہیں ہے۔۔۔۔۔
سردار عطااللہ مینگل نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’پہلے مست گھوڑوں کو لگام دیں، پھر بلوچ نوجوانوں سے بات کریں‘۔
اس موقع پر میاں نواز شریف نےسردارعطااللہ کی باتوں کو سچا اور کھرا قرار دیا اور کہا کہ بلوچستان سے ظلم ہوا ہے وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں، اب مسلم لیگ ن بلوچستان کا مقدمہ لڑے گی۔ بلوچستان پاکستان کا بہت قیمتی حصہ ہے، جنہوں نے یہ زیادتیاں کی ہیں ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر معاملات ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان نوجوانوں سے بھی بات کریں گے جو ان مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے کہا کہ جس نے نواب اکبر بگٹی کو مارا ہے، اگر اس کا احتساب نہیں ہوا تو پھر کس احتساب اور ملکی یکہجتی کی بات کی جارہی ہے۔ صرف بلوچستان پیکیج کے اعلان سے کام نہیں چلے گا۔
جب بزرگ سردار اور میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی۔ تب ملک پر پیپلزپارٹی حکمران تھی۔ بلوچستان پیکیج کے اعلانات ہو رہے تھے۔ یہ اعلانات سن کر ایسے لگ رہا تھا جیسے اب بلوچستان کے دن بدل جائیں گے، ناراض بلوچ پہاڑوں سے نیچے اتر آئیں گے، ملک کے محافظوں سے گرم جوشی سے معانقے کریں گے، پھر ان کے سارے گلے شکوے ختم کیے جائیں گے، انھیں بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں شامل کیا جائے گا۔ یوں سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی، پھر میاں نواز شریف وزیراعظم بنے، ان کی جماعت مسلم لیگ ن پورے پانچ برس تک حکمران رہی، اس کے بعد عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے، ساڑھے تین برس وہ بھی حکومت کرتے رہے، بعد ازاں میاں شہباز شریف ڈیڑھ برس وزیر اعظم رہے۔
ان سب حکمرانوں کے وہ بیانات گوگل پر سرچ کرکے جمع کیے جائیں جو انھوں نے بطور اپوزیشن لیڈر دیے تھے، آپ دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ایک جیسے الفاظ ہوں گے اور ایک ہی جیسے جملے۔ کہیں سرِ مو فرق نظر نہیں آئے گا۔
جب یہی اپوزیشن لیڈر حکمران بنتے ہیں تو ان کے بلوچستان سے متعلق جذبات میں پہلے جیسی گرمی نہیں رہتی، ان کی حکمرانی کے سارے عرصہ میں ان کے پرانے سب وعدے ایفا ہونے کے انتظار میں سوکھ کر کانٹا بن جاتے ہیں۔ یوں بلوچ اور ان کا بلوچستان وہیں کا وہیں کھڑا رہ جاتا ہے۔ پھر ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوجاتا ہے اور وہ ایک بار پھر بلوچستان کے باسیوں کے ساتھ، لاپتہ لوگوں کے عزیزوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔
بیس دسمبر دوہزار گیارہ کے بعد اکیس دسمبر دو ہزار تئیس بھی آ جاتا ہے۔ پھر وہی سب کچھ ہوتا ہے جس کا رونا ہر روز رویا جاتا ہے۔ برسوں سے نہیں عشروں سے رویا جا رہا ہے۔
اکیس دسمبر دو ہزار تئیس کی یخ بستہ ساری رات، اپنے پیاروں کی تلاش میں اسلام آباد پہنچنے والے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا اندازہ گرم کمروں میں بیٹھ کر کیسے کیا جاسکتا ہے؟ حامد میر اور عاصمہ شیرازی کی طرح ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ تب لاپتہ لوگوں کے کرب اور درد کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد پولیس کہتی ہے کہ اس نے بلوچستان سے آنے والے ان مظاہرین پر تشدد نہیں کیا، انھیں بسوں میں بیٹھا کر وہاں بھیج دیا جہاں وہ جانا چاہتے تھے۔ لیکن ریکارڈ ہونے والی ویڈیوز اسلام آباد پولیس کے دعووں کو جھوٹ ثابت کرتی ہیں۔
میں لاکھ کوشش کے باوجود، دو سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں۔
اولاً: بلوچ مظاہرین کے لاپتہ پیاروں کے خلاف کچھ ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو ان کی بنیاد پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ عدالتوں سے انھیں سزا دلا کر جیلوں میں کیوں بند نہیں کردیا جاتا؟ اگر آپ قانون کو ادھورا سمجھتے ہیں تو پچھتر برسوں میں اسے پورا کیوں نہیں کیا؟ چلیں! اب ہی پورا کرلیں۔ لوگوں سے ماورائے قانون سلوک کرکے، آخر کیوں مخالف طاقتوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے لوگوں کو ’اپنا‘ بنائیں اور پھر انھیں استعمال کریں اور خوب استعمال کریں؟
دوسرا سوال بھی اسی سے جڑا ہے کہ ہمارے عظیم پالیسی سازوں نے اپنوں کو دشمن بنانے کا فن کہاں سے سیکھا ہے؟ اب وہ اس فن میں اس قدر طاق ہوچکے ہیں کہ کسی کی اپنائیت، وفاداری، دوستی انھیں اچھی ہی نہیں لگتی۔ جو باتیں سردارعطااللہ مینگل میاں نواز شریف سے ملاقات میں کہہ رہے تھے، یہی رونا شیخ مجیب الرحمن رویا کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان والے بھی کہتے تھے کہ وہ پاکستان ہیں اور بلوچستان والوں کا بھی اصرار ہے کہ وہ پاکستان کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ تاہم ہمارے کرتا دھرتا ڈنڈا پکڑ کر مشرقی پاکستان سے بلوچستان تک، ہر ایک کو یہی کہہ رہے ہیں’چل نکل دائرہ پاکستان سے‘!