سرزمین شعر کے نیم خواندہ باسیوں میں میر کی بات ہو جائے تو کوئی جیالا غالب کا علم بلند کر دیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ غالب، غالب ہے جس کی عظمت مسلم ہے لیکن میر وہ ہے جس کی عظمت کے سامنے غالب یہ کہہ کر سر جھکاتے ہیں کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ آج اسی میر کا تذکرہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ ہمارے ہی غم میں دبلے ہوئے جاتے ہیں۔ فرماتے :ہیں
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اس عظیم مصرعے کی یاد دہانی کے لیے میں قبلہ الطاف حسن قریشی کا ممنون ہوں۔ الطاف صاحب ہماری صحافت کے میر تقی میر ہیں یا نہیں، اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن جس شخص کو بھی شعور اور ذوق کی پیدا کردہ کیفیات میں انہیں پڑھنے کا موقع میسر آیا ہے، وہ ضرور کہے گا کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ الطاف صاحب کی یاد اس مرحلے پر کیوں آئی؟
سچ تو یہ ہے کہ جیسے غالب اور میر کو یاد کرنے کے لیے کوئی بہانہ ضروری نہیں اسی طرح الطاف صاحب کی یاد بھی کسی جواز کے بغیر آنی چاہیے اور سچ تو یہ ہے کہ ہوتا بھی اسی طرح سے ہے۔
ہم اہل صحافت مولوی محمد باقر کے ہمیشہ ممنون احسان رہیں گے۔ مولوی صاحب ہماری صحافت کے پہلے شہید ہیں جنہوں نے دہلی اردو اخبار کے ذریعے 1857ء کی جنگ آزادی کی ترجمانی کی اسی جرم کی پاداش میں بغیر کوئی مقدمہ چلائے توپ سے اڑا دیے گئے۔ مولوی صاحب شہید کی طرح ہمارے الطاف صاحب بھی پرانی ہڈی ہیں۔ انہوں نے صحافت کی دنیا میں مولوی محمد باقر اور شہید محمد صلاح الدین کی طرح جان نہیں دی، میاں نواز شریف کی طرح لمبی اننگ کھیلی ہے۔
جان دینے اور طویل اننگ کھیلنے میں فرق کیا ہے؟ جدو جہد سے تو مفر نہیں۔ جدوجہد بھٹو صاحب نے بھی کی اور صلاح الدین صاحب نے بھی۔ یہ دونوں بزرگ جان دے کر امر بھی ہو گئے لیکن اس کے ساتھ یہ ہوا کہ ان کے دور کا باطل غالب آ گیا۔ طویل اننگ طویل نظم کی طرح ہوتی ہے۔ ان کی ایک طویل نظم طلوع اسلام کا ایک شعر ہے:
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے
نواز شریف کی سیاسی جدوجہد اقبال کے اسی شعر کی عملی تفسیر ہے جنہوں نے کبھی شکست بھی تسلیم نہیں کی اور ایک زیرک جنگ جو کی طرح راستہ بھی نکال لیا۔ ہمارے الطاف صاحب بھی ایسے ہی اہل ایمان میں سے ایک ہیں جن کی تگ و تاز کا زمانہ اب ساتویں دہائی میں داخل ہو تا ہے۔
جن معاشروں میں عظمت کا معیار قدامت سے طے پاتا ہے، وہاں سوال اٹھتا ہے کہ کتنے قدیم؟ لوگ ماضی کا سراغ لگاتے جاتے ہیں اور اپنے ہیروز کی قدامت کا سراغ پاتے جاتے ہیں۔ ہمارے الطاف صاحب اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔
مزید پڑھیں
حال ہی میں ان کی کتاب منصہِ شہود پر آئی ہے، ‘قافلے دل کے چلے’۔ یہ الطاف صاحب کا سفر نامہ حج ہے۔ ہم گناہ گار لوگ حج کے سفر نامے ایک خاص روحانی کیفیت کے ساتھ پڑھتے ہیں، جن لوگوں کو الطاف صاحب کو پڑھنے کا تجربہ ہے، وہ جانتے ہیں کہ ایسی روحانی کیفیات ان کی تحریر کا جزو لازم ہیں لیکن میرا معاملہ جدا ہے۔ اس کتاب کی ابتدا بلکہ اس کے پیش لفظ میں ہی انہوں نے میر صاحب کا ایک مصرع کیا لکھ دیا ہے گویا جان ہی لے لی۔ اپنے قاری کو وہ اس کا کتاب کا سفر شروع کرنے سے پہلے ہی خبردار کر دیتے ہیں کہ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔
اب میں نے یہ مصرع پڑھا تو سچ یہ ہے کہ الطاف صاحب کی طلسمی تحریر تو اپنی جگہ رہی، لیکن میرے سفر کا زاویہ بدل گیا۔ آج کا پاکستان بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ سپریم کورٹ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ الیکشن 8 فروری کو ہونے ہیں۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ہم پیشہ بھائیوں یعنی صحافیوں کو مخاطب کر کے انہوں ذرا شگفتہ انداز میں فرمایا کہ دیکھو، الیکشن تو اسی دن ہوں گے، اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن اگر ذاتی حیثیت میں تمہیں اس میں کوئی مسئلہ ہو تو یہ مباحثہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کر لینا، عوام کو بے یقینی میں مبتلا نہ کرنا۔
یہ نصیحت کارگر ثابت نہ ہو سکی اور شبہات کا ایک ریلا بہہ نکلا، پھر اس آزار کو تقویت ایک فیصلے سے بھی میسر آ گئی، یوں سب کچھ داؤ پر لگ گیا۔ اس کے بعد پھر بھیگتی رات کے سائے میں عدالت بیٹھی اور ایک بار پھر واضح کر دیا گیا۔ گرد و غبار پھر چھٹ گیا۔ اب مطلع ایک بار پھر ابر آلود ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بے یقینی ایک بار پھر امڈتی نظر آرہی ہے۔
بے یقینی کی یہ کیفیت صرف ہمارے داخلی محاذ ہی پر تو نہیں ہے، ہمارے ماں جائے بھائی اور فلسطینی جگر گوشے بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ جنگ بندی ہوگی کہ نہیں ہوگی، اہل فلسطین غزہ واپس جا سکیں گے کہ نہیں۔ اچھا اگر واپس نہیں جا سکیں گے تو پھر کہاں جائیں گے؟
سنتے ہیں کہ واپسی کا تو کوئی امکان نہیں۔ اردو ڈائجسٹ کے برادرم سید عاصم محمود خبر لائے ہیں کہ اب انہیں صحرائے سینائی میں لا پھینکنے کے منصوبے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مصر کو اگلے پچھلے تمام قرضے معاف کر دیے جانے کی پیش کش ہے۔ ایتھوپیا پر دباؤ ہے کہ اس نے دریائے نیل پر جو بند باندھا ہے، اس سے دست کش رہے تاکہ مصر کو پانی کی کوئی کمی نہ ہو اور وہ اہل غزہ کے لیے دروازے کھول دے۔
اہل غزہ کے لیے یہ منصوبے کچھ اس انداز سے بن رہے ہیں جیسے وہ بے وطن ہوں، ان کا کوئی گھر نہ ہو اور انہیں کہیں نہ کہیں بہ امر مجبوری لا پھینکا جائے۔ یہ ماجرا ایسی قوم پر بیت رہا ہے جس کا اپنا وطن ہے اور ہزاروں برس سے وہ جس کے باسی ہیں۔ اب غیب سے کیا ظہور میں آنے والا ہے، کچھ خبر نہیں۔ سب کچھ سیال ہے ۔ کوئی بے یقینی سی بے یقینی ہے۔
بے یقینی کی کچھ ایسی ہی کیفیات تھیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قریشی صاحب نے میر کے مصرعے کا سہارا لیا۔ ایسا کر کے وہ ہمیں کیا بتانا چاہتے ہیں؟ یہ تذکرہ نسبتاً طویل ہے۔
پاکستان آج معیشت کی جس پیچیدہ دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اس سے نکلنے کے لیے ہم جگہ جگہ پُرامید نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کہیں سے کچھ توقع پوری ہوتی ہے، کہیں سے مایوسی ہوتی ہے۔ کل کا پاکستان کیسا تھا اور آج ہمارا ملک جس حال کو پہنچ چکا ہے، اس کا راز کیا ہے؟
قریشی صاحب ہماری توجہ اس جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں۔ الطاف صاحب جس زمانے میں حج کو گئے اور کچھ دنوں کے بعد شاہ فیصل شہید کے انٹرویو کے لیے سرزمین حرمین تشریف لے گئے، اس زمانے کا پاکستان کیسا تھا؟ اس کی جھلکیاں ان کے سفر نامہ حج میں ملتی ہیں۔
انہیں پڑھتے ہوئے خلد آشیانی ممتاز مفتی یاد آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی عدیم النظیر کتاب ‘الکھ نگری’ میں کئی بزرگوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں ایک 300 سال پرانے بزرگ ہیں یعنی شاہ عبدالطیف المعروف بری امام۔ حضرت شاہ صاحب ایک بار کسی کیفیت میں مارگلہ کی پہاڑی پر تشریف لے گئے اور نیچے دامن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں ان ترائیوں میں ایک شہر آباد ہو گا، دنیا جس سے پوچھ کر اور اس سے اجازت لے کر اپنے فیصلے کیا کرے گی۔ وہ شہر تو ہم آپ جانتے ہیں کہ اسلام آباد ہے جو پاکستان کا دارالحکومت ہے۔
الطاف صاحب کے اس سفر نامے سے اسی پاکستان کی خبر ملتی ہے جس کی پیشین گوئی 300 برس پیشتر حضرت بری امام علیہ رحمہ نے کی تھی۔ اس زمانے کے پاکستان کے ساتھ اہل غزہ اور اہل فلسطین کے رشتے کیسے تھے، اس کی دل نشیں جھلکیاں بھی ہمیں قریشی صاحب کے ہاں دکھائی دیتی ہیں۔
اپنے اس سفر کے دوران وہ ایک فلسطینی مہاجر کیمپ میں تشریف لے جاتے ہیں تو ان کی میزبان فلسطینی خاتون شادیِ غم کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میرا پاکستانی بھائی آیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اسے کہاں بٹھاؤں؟ وہ کبھی زمین پر اپنا بستر بچھاتی ہے، کبھی کچھ اور پھر بے بسی کے عالم میں اسے اپنی اوڑھنی کی یاد آتی ہے۔ اپنی جاں نذر کروں اپنا وفا پیش کروں والا معاملہ تھا۔
فلسطین ہو، سعودی عرب یا دوسری عرب دنیا، پاکستان کی اس قدرو قیمت کے یہ مناظر ہمیں ‘ قافلے دل کے چلے’ میں جگہ جگہ دکھائی دیتے ہی۔ یہ محبت پاکستان کا قیمتی سرمایہ تھا، پاکستان اس سرمائے سے محروم کیسے ہوا؟ یہ کہانی درد ناک ہے۔ الطاف صاحب اچھا کریں اگر اپنے ان تذکروں کے تناظر میں پورے پس نظر کے ساتھ یہ کہانی بھی کہہ ڈالیں تو خلق خدا کی آنکھیں کھلیں۔
خیر، ان کی یہ کتاب تو بجائے خود ایک مستقل حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اہل نظر اس سے جیسے جیسے استفادہ کرتے رہیں گے روشنی پاتے رہیں گے۔ ہمارا تازہ مسئلہ تو بے یقینی ہے، ہمارا سکھ جس کی نذر ہو رہا ہے۔
برسبیل تذکرہ اتنا کہہ دینے میں کوئی ہرج نہیں کہ پاکستان کی قدر و قیمت کی وہ متاع جو ہم سے چھن گئی، اس کے چھننے کا باعث بھی ہماری ڈھل مل یقینی تھی اور غلط فیصلے تھے۔ لمحہ موجود میں ہم معاملات کو جس طرح الجھا رہے ہیں اور درست فیصلوں اور کاموں سے پہلو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا نتیجہ بھی یہی نکلے گا پھر قریشی صاحب کی طرح کل کوئی صاحبِ نظر ہمیں بتائے گا کہ ’مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘۔