‘‘تشدد کے باوجود اپنی جدوجہد ترک نہیں کریں گے،ہمیں اداروں پر بھروسہ نہیں۔’’
یہ آواز آزاد ریاست اور پاکستان کےان قید شہریوں کے خاندانوں کی ہے جن کے پیاروں کو دن دیہاڑے اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر ان کا کچھ اتا پتا نہیں ہوتا۔ یہ آواز تربت سے اسلام آباد تک کا سفر کرنے والےان مظلوم بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکاء کی ہے جن کو اسلام آباد پولیس نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا۔ اور سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز جاری ہوئی تھیں کہ کیسے مظاہرین پر اس سردی میں پانی پھینکا جارہا ہے اور کس طرح انہیں زبردستی واپس بھیجا رہا ہے۔
حکومت نے دعویٰ کیا کہ احتجاج کرنے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کا تعلق بلوچستان سے آنے والے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو ان لوگوں کی شناخت کر کے الگ کیوں نہ کیا گیا؟ احتجاج کرنے والا شرکاء کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اگر چند عناصر اپنےمفاد کے لیے بلوچ یکجہتی مارچ کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے تو اس میں تفریق کرنا حکومت کا کام تھا۔ حکومت نے یہ کام کیوں نہ کیا؟ اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ کیوں لگوایا؟
بلوچ تربت سے نکلے اور اسلام آباد سےنکال دیے گئے، اگر وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے آتے ہیں تو ان کے دکھوں کو سننا ریاست کا فرض ہے۔ لیکن بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا سراپا احتجاج ہیں، ریاست کے آگے دہائیاں دیتے ہیں، ان کی شنوائی نہیں بلکہ رسوائی ہی ہوتی ہے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے درد میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کچھ حاصل کرنے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے، بلوچ اپنے پیاروں کو حاصل کرنے کے لیے یہ قربانیاں کب سے دے رہے ہیں لیکن ان کی قربانیاں نظر انداز کر دی جاتی ہیں ۔
لاپتہ افراد کے خاندان حکمرانوں کے سامنے اپنا دامن پھیلا چکے ہیں۔ لمحے بھر میں متعدد گھرانے اجڑ جاتے ہیں۔ ننھے معصوم بچےجن کے ہزاروں خواب تعبیر سے پہلے ہی ٹوٹ گئے۔ والدین کی ڈھیروں تمنائیں پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئیں۔ نہ جانے کتنے لوگ اپنے پیاروں کے انتظار میں ابدی نیند سو گئے۔ لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
کئی کمیشن اور کمیٹیاں بنیں لیکن ماؤں کے جگر گوشے نہ لوٹ سکے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے لیے عدالتیں موجود ہیں لیکن لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنے والے ادارے ہی اگر ان کی جان کے درپے ہو جائیں تو وہ کس پر اعتبار کریں؟ ریاست تحفظات دور کرنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ کرتی جا رہی ہے۔
ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کی غلطیوں کوبھی معاف کرتی ہے۔ مان لیتے ہیں کہ کچھ گمراہ بھی ہوچکے ہوں گے۔ انہیں ریاست کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ اپنے ہی ہم وطنوں کے گلے کاٹنے کے لیے انہیں ورغلایا جاتا ہے۔ لیکن تب بھی ایسے مسائل سے نمٹنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے، عام مزدوروں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والوں کو الگ کرکے انہیں انجام تک پہنچانے کے لیے عدالتیں کام کرسکتی ہیں۔ کہا یہ جائے کہ عدالتیں کام نہیں کرتیں تو عدالتوں کو ٹھیک کردیں۔
حکومت میں آنےسے پہلے ہر سیاستدان بھی لاپتا افراد کے معاملے پر یہی کہتا ہے کہ کوئی ریاست اتنا ظلم کیسے کر سکتی ہے جب وزیراعظم بنیں گے تو جبری طور پر لاپتہ افراد کو ڈھونڈیں گے لیکن حکومت میں آنے کے بعد صرف الزامات اور مفادات کی سیاست کی جاتی ہے اور لاپتا افراد ہمیشہ کے لیے لا پتا ہو جاتے ہیں۔ آخر انصاف کب ملے گا؟
بلوچستان کے مسئلے کو اگر انفرادی طورپر دیکھا جائے تو اس کے لیے ایک دیرپا فارمولا بنانا پڑے گا۔ جو لوگ قومی دھارے میں آنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔ انہیں بھی یہ ادراک کروانا چاہیے کہ بندوق کے زور پر وہ ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ اپنی ہی ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانا کوئی عقلمندی نہیں۔ ساتھ ہی ریاست کو بھی دل بڑا کرنا پڑے گا۔ ریاست طاقتور ہوتی ہے۔ اس کے پاس ہر قوت ہوتی ہے۔ مگر طاقت بھی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوا کرتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی بات ہوئی مذاکرات کی میز پر ہی ہوئی۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ان تمام افراد کو قومی دھارے میں لایا جائے کیونکہ ریاست با اختیار ہے وہ چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اگر ریاست با اختیار نہیں تو کون ہے؟