پاکستان 2024 میں اپنے 16ویں انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کے وہ انتخابات ہیں جن میں انتخابی مہم، لائیو اسٹریم اور جلسوں کے لیے ٹیکنالوجی و آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں سیاسی جماعتوں کے مطابق ڈیجیٹل انتخابی مہمات کے بغیر انتخابات میں جانا نا ممکن ہے۔
سیاسی جماعتیں ووٹروں کے رویے کو سمجھنے، انتخابی مہم کی حکمت عملیوں اور انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہیں۔
اس کی بڑی مثال حال ہی میں ہونے والا پاکستان تحریک انصاف کا ورچوئل جلسہ اور مسلم لیگ ن کا سیاسی شو ہے۔
سیاست میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال کا آغاز ن لیگ نے کیا، عاطف رانا
پاکستان مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا ہیڈ عاطف رانا کہتے ہیں کہ جب میاں نواز شریف وطن تشریف لائے تو ان کی جتنی بھی تصاویر پوسٹرز پر تھیں انہیں آرٹیفشل انٹیلیجنس کے استعمال سے ہی بنایا گیا تھا اور سیاست میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا آغاز بھی ن لیگ نے ہی کیا ہے۔
مزید پڑھیں
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ورچوئل جلسہ کروانا بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے تحت ہی ممکن ہوا تھا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے علی ملک کہتے ہیں کہ چونکہ ہمارے لیڈر عمران خان جیل میں ہیں اور وہ بیان بھی ریکارڈ نہیں کروا سکتے تھے اس لیے ہمارے پاس آخری راستہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ان کی آواز میں جلسہ کرنا تھا۔ ان کے مطابق وہ آئندہ بھی اپنی انتخابی مہم میں نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے رہیں گے، تاکہ بہت سی پابندیوں کے باعث ناممکن چیزوں کو ممکن بنایا جا سکے۔
ٹیکنالوجی کی دوڑ، سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ریس
سیاسی جماعتیں ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ریس میں لگی ہوئی ہیں۔ مختلف ڈیموگرافکس کے ڈیٹا سیٹس کی بڑے پیمانے پر باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ اعداد و شمار کے تجزیات کے ذریعے سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو توڑ کر نئے سانچے میں ڈھال رہی ہیں۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال جہاں انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو مشکلات سے لڑنے کے لیے معاون ثابت ہو رہا ہے وہیں اس ٹیکنالوجی کا استعمال انتخابی عمل کے دوران یا انتخابی نتائج پر بری طرح اثر انداز بھی ہو سکتا ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس تخریب کاری کے لیے استعمال ہو سکتی ہے، میسم رضا
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کراچی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر میسم رضا حمانی نے بتایا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس انتخابات میں تخریب کاری کے لیے بہت زیادہ استعمال ہو سکتی ہے۔ ’آپ نے امریکا کے انتخابات دیکھے ہیں تو ان میں سب سے زیادہ سوشل انجینیئرنگ کی گئی اور عوام کو اس بارے میں قائل کیا گیا کہ ایک پارٹی اچھی ہے اور دوسری پارٹی بری‘۔
انہوں نے مزید کہاکہ اے آئی میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں چہرہ تبدیل کر کے کسی اور کا لگا دیا جاتا ہے اور آج کل تو یہ سب اتنا معمول کا حصہ ہوتا ہے کہ آپ جو چاہیں اسی کی آواز میں بلوا بھی سکتے ہیں۔ یہ سب اے آئی کے کمالات ہیں۔ اس کے ذریعے جھوٹ اور سچ کی تفریق محسوس بھی نہیں ہوتی۔
پولیٹیکل انجینیئرنگ بہت عام ہو رہی ہے
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل انجینیئرنگ بہت عام ہو رہی ہے۔ مطلب ایسی باتیں کر دی جاتی ہیں جو کسی پارٹی کا مینڈیٹ یا ان کا منشور نہیں ہوتا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر انجنیئرڈ ایڈز چلائے جاتے ہیں جس کا مقصد تمام ووٹرز کا دماغ ایک پارٹی کی جانب مائل کیا جاتا ہے اور پھر جب ایک بڑی تعداد میں عوام کے دماغ مائل ہو جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا رجحان اس پارٹی کی جانب ہے۔ اسے پولیٹیکل انجینیئرنگ کہتے ہیں۔
’ اس کے علاوہ اے آئی کے ذریعے کوئی بھی پارٹی عوام کی فیصلہ سازی کو بھی بدل سکتی ہے، چاہیں تو ’ووٹر ٹرن آؤٹ‘ گرا بھی سکتے ہیں یا اس ووٹر ٹرن آؤٹ کو اپنے مقابل کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں کہ ہمیں ووٹ زیادہ پڑے ہیں اور دوسری پارٹی کو کم تاکہ ان کا ووٹ بینک ٹوٹ جائے‘۔
اے آئی کے استعمال سے انتخابات پر اثر ڈالا جا سکتا ہے، اسامہ احمد
اسامہ احمد آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایکسپرٹ ہیں، انہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ 2022 میں جنوبی کوریا میں امیدوار نے صدارتی مہم آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے ہی جیتی تھی۔ اگر اس طرح سے اے آئی کا استعمال کیا جائے جیسے پی ٹی آئی نے کیا تو اس طرح انتخابات پر بھی اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ لیکن کوئی ایسا ٹول نہیں ہے جس کے ذریعے انتخابات کے نتائج کو براہِ راست بدلا جا سکے۔ لیکن کسی پولنگ اسٹیشن پر ووٹوں کے نمبرز میں دھاندلی کی جا سکتی ہے۔