آج دسمبر کی 25 ہے۔
موسم ظاہر ہے سرد ہی ہوگا۔۔۔ اور ہے بھی۔
دنیا میں پیدائشِ عیسیٰ کے حوالے سے جشن منائے جا رہے ہیں۔ محافل و تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔۔۔ اور پاکستانی جناح کا جنم دن منا رہے ہیں۔ سیمیناروں اور نشستوں اور مذاکروں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔۔۔ اور میں ایک عجیب سی اداسی۔۔۔ عجیب سی قنوطیت۔۔۔ عجیب سے اضمحلال کا شکار ہوا پڑا ہوں۔ ذہن عجیب سی الجھن اور خلفشار کی آماجگاہ بنا پڑا ہے۔
یہ سالگراؤں کے منانے کی رسم بھی عجیب ہے۔ زندوں کی سالگرہ پران کی زندگی کا ایک سال کم ہو جاتا ہے۔۔۔ اور مرے ہوؤں کی سالگرہ پر ان سے بچھڑے ہوئے عرصے میں ایک سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ زندوں سے تعلق کی عمر ہر سال گرہ کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔۔۔ اور مرے ہوؤں کی جدائی کی عمر ہر سال گرہ کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ جدائی جتنی پرانی۔۔۔ جتنی سالخوردہ ہو جائے۔۔۔ اس کا مزہ پرانی شراب کے نشے کی طرح بڑھتا جاتا ہے۔
جناح 25 دسمبر کو پیدا ہوئے اور 11 ستمبر کو مر گئے۔ مطلب جب وہ پیدا ہوئے۔۔۔ انہیں مرے ہوئے 104 دن ہو چکے تھے۔ مجھے قدرت اللہ شہاب کی لکھی شہرہ آفاق کہانی چندراوتی کو شروع کرتی سطریں یاد آگئیں ہیں:
’’ جب مجھے۔۔۔ چندرا وتی سےمحبت شروع ہوئی۔۔۔ اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔۔۔‘‘
کہتے ہیں کہ عام آدمی۔۔۔ عام شہری مر جائے۔۔۔ تو ایک انسان کی موت ہوتی ہے۔۔۔ جس کی نہ کوئی سوچ ۔۔۔ نہ آدرش ۔۔۔ نہ دنیا بدلنے کا خواب ۔۔۔ نہ کسی عہد کو متاثر کرنے کا پیمان ۔۔۔ مطلب سانس ختم ہوئی ۔۔۔ دل دھڑکنا بند ہوا ۔۔۔ بندہ مر گیا ۔۔۔ لواحقین نے دفنا دیا ۔۔۔ جلا دیا ۔۔۔ یا مینارِ خامشی پر لے جا کر اسے سپردِ فطرت کردیا ۔۔۔ اس کی کہانی ختم ۔۔۔ کتاب بند ۔۔۔ قصہ ختم ۔۔۔
لیکن بڑے آدمی کی زندگی اس کی سانس سے جُڑی ہوتی ہے ۔۔۔ نہ دل کی دھڑکن سے بندھی۔ اس کی زندگی کی عمر اس کی سوچ ۔۔۔ اس کے خواب ۔۔۔ اس کے آدرش ۔۔۔ اس کے مقصد کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ بڑا آدمی ۔۔۔ اپنے خیالوں ۔۔۔ نظریوں ۔۔۔ سوچوں ۔۔۔ آدرشوں ۔۔۔ اور مقصدوں کی وجہ سے بڑا ہوتا ہے ۔۔۔ انہی کی وجہ سے جیتا ہے ۔۔۔ جیتا رہتا ہے ۔۔۔ طبعی طور پر مرنے کے باوجود نہیں مرتا۔ وہ تب مرتا ہے ۔۔۔ جب اس کے وارث ۔۔۔ اس کا نظریہ ۔۔۔ اس کے خواب ۔۔۔ اس کے آدرش ۔۔۔ اور اس کے مقصد کو سنبھال نہیں پاتے۔ وہ تب مرتا ہے جب اس کے خواب مر جاتے ہیں ۔۔۔نظریہ مر جاتا ہے ۔۔۔ مقصد مر جاتا ہے ۔۔۔ اور بڑا آدمی اگر مر جائے ۔۔۔ تو اس کی سال گرہ پر بھی اداسی ہی ہوتی ہے ۔۔۔جناح بھی ایک بڑا آدمی تھا ۔۔۔
جی جی ۔۔۔آج 25 دسمبر ہے ۔۔۔ پیدا ہونے کا دن ہے ۔۔۔ مرنے کا نہیں ۔۔۔ اور یہ جناح کا پاکستان ہے ۔۔۔ اور جناح کے ایک پاکستان کے بطن سے ایک ملک اور درجنوں قومیتیں جنم لے چکی ہیں۔ خواب ایک ایسے آزاد پاکستان کا تھا جہاں فرد ۔۔۔ ذمہ داری کے تابع ہوگا ۔۔۔ معاشرہ قانون کے تابع ہوگا ۔۔۔ملک جمہوریت کے تابع ہوگا ۔۔۔ اور ریاست آئین کے تابع ہوگی۔ لیکن آزادی کے بعد سب کچھ تلپٹ ہوکر رہ گیا ۔۔۔ سبھی آزاد ہوگئے ۔۔۔ فرد ذمہ داری سے ۔۔۔ معاشرہ قانون سے ۔۔۔ ملک جمہوریت سے ۔۔۔ اور ریاست آئین سے۔ جس کا جو جی چاہا اس نے کیا ۔۔۔ ملک من مرضیوں کی بھینٹ چڑھ گیا ۔۔۔ یہاں آمریت ۔۔۔ آمریت کی طرح آئی ۔۔۔ نہ جمہوریت ۔۔۔ جمہوریت کی طرح ۔۔۔ صاف ۔۔۔ شفاف ۔۔۔ غیر جانبدار ۔۔۔ حق ۔۔۔ نا حق ۔۔۔ عدل ۔۔ انصاف ۔۔۔ مساوات ۔۔۔ برابری ۔۔۔ سب کے مطالب نے نئے مفاہیم کو اپنا لیا ۔۔۔ کوئی دعویٰ کرے کہ یہ پانی صاف ہے ۔۔۔ تو سننے والا سمجھ جاتا ہے کہ پانی ۔۔۔ میلا ہے ۔۔۔
شیشہ شفاف ہے ۔۔۔ مطلب ۔۔۔ دھندلا ہے ۔۔۔
پنچ غیر جانبدار ہے ۔۔۔ مطلب ۔۔۔۔ اب کیا مفہوم بیان کیا جائے ۔۔۔ کہ کچھ تو ان کہا چھوڑا جائے ۔۔۔
پچھلے کچھ دنوں سے ۔۔۔ جناح کے بنائے ملک کے ایک حصے سے چلے بچے اور عورتیں ۔۔۔ اپنی بات لے کے ۔۔۔ ایک ہزار کلومیٹر کا سفر کرکے دارالحکومت پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ اور مقصد یہ کہ کوئی تو ان کی سنے ۔۔۔ ان سے بات کرے ۔۔۔ ان کے آنسو صاف کرے ۔۔۔ درد کا مداوا بنے ۔۔۔ زخم پر مرہم رکھے ۔۔۔ یا کم از کم ۔۔۔ کوئی حرفِ تسلی ۔۔۔ کوئی امیدِ کاذب ۔۔۔ کوئی رمقِ روشنی ۔۔۔ مگر نہیں ۔۔۔ مگر کہاں ۔۔۔ ریاست کا کوئی ادارہ ان کی سننے کو تیار نہیں ۔۔۔ بھیڑ بکریوں کی طرح ۔۔۔ دسمبر کی سردی میں انہیں خوار کیا جا رہا ہے ۔۔۔ اور کسی کو یاد نہیں کہ یہ دن اس کی سالگرہ کے ہیں جس نے یہ ملک بنا کر دیا تھا ۔۔۔ اور ہمارے حوالے کیا تھا ۔۔۔
میں نے ہی ۔۔۔ مطلب راقم نے ہی ایک بار کہا تھا کہیں ۔۔۔ کبھی ۔۔۔ کسی کو ۔۔۔ کہ نظریہ رکھنا ہاتھی کے پالنے جیسا ہوتا ہے ۔۔۔ اس سے محبت کرنا ہوتی ہے ۔۔۔ اس کے وجود کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے کئی مفادات کی قربانی دینا ہوتی ہے ۔۔۔ خود کم جگہ پر گزارا کرنا ہوتا ہے ۔۔۔ اس کو ذیادہ جگہ دینی ہوتی ہے ۔۔۔ خود کم کھانا ہوتا ہے ۔۔۔ اسے ذیادہ کھلانا ہوتا ہے ۔۔۔ پھر یہ ہمیں فائدہ دیتا ہے۔ میں نے یہ فقط مثال دی تھی ۔۔۔ ہم نے تو جناح کے بعد ۔۔۔ اس کے نظریے کے ہاتھی کو پالنے کی بجائے ۔۔۔ ہاتھی کا نظریہ پال لیا ۔۔۔ اور ساتھ میں مفاد کا بکری نظریۂ ضرورت رکھ لیا ۔۔۔ اب ہم بکری کا دودھ پیتے ہیں ۔۔۔ اور اس کی مینگنیوں کو ٹھکانے لگواتے ہیں ۔۔۔ اور مینگنیوں کو ٹھکانے لگانے والوں کو۔۔۔ ہاتھی کے آگے ڈال دیتے ہیں ۔۔۔ ہم بھی خوش ۔۔۔ ہاتھی بھی خوش ۔۔۔
بات ان کی ہورہی تھی جو اپنے گم شدہ پیاروں کی تلاش میں ۔۔۔ مدد کی آس میں ۔۔۔ ملک کے ایک حصے سے گزرتے اگلے حصے تک آن پہنچے ۔۔۔ لیکن یہ بھی ان کو بھول گئے کہ جنہیں ان کے حصے میں ۔۔۔ اس حصے سے آئے ہوؤں کو آئے روز مار دیا جاتا ہے ۔۔۔ ملک کے جس حصے سے یہ با حفاظت وہاں تک آگئے جو کسی کا حصہ نہیں ہے ۔۔۔ لیکن سب کا ہے ۔۔۔ کہتے ہیں ۔۔۔ مرے ہوؤں کا دکھ ۔۔۔ گمے ہوؤں کے دکھ کی نسبت کم ہوتا ہے ۔۔۔ لیکن بے گناہ مارے جانے والوں کا دکھ بھی تو دکھ ہی ہوتا ہے ناں ۔۔۔ گم شدہ تو شائد کسی دن مل بھی جائیں ۔۔۔ کبھی واپس بھی آ جائیں ۔۔۔ لیکن مرے ہوئے تو کبھی نہیں ملتے ۔۔۔ کبھی واپس نہیں آتے ۔۔۔ ان بے گناہ مارے جانے والوں کے بارے کوئی احتجاج نہیں کرتا ۔۔۔ کوئی آواز بلند نہیں کرتا ۔۔۔
کوئی انسانی ہم درد ۔۔۔ ؟
کوئی انسانیت کے غم میں مارا ہوا ۔۔۔ ؟
کوئی انسانی حقوق کا علم بردار ۔۔۔ ؟
نہیں ۔۔۔کوئی نہیں ۔۔۔
ابھی چند روز قبل ۔۔۔ جب ملک کے اُس حصے سے نکلی خواتین اور بچے ۔۔۔ اپنے گم شدوں کی تلاش میں نکل رہے تھے ۔۔۔ انہی کی سر زمین پر ۔۔۔ ملک کے دوسرے حصے سے آئے نصف درجن محنت کشوں کو ۔۔۔ بے دردی سے ذبح کردیا گیا تھا ۔۔۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا ۔۔۔ جناح کے پاکستان میں ۔۔۔ دکھ اپنا اپنا ۔۔۔ آنسو اپنے اپنے ۔۔۔ اور احتجاج بھی اپنا اپنا ۔۔۔ اپنے زندوں کی تلاش میں ۔۔۔ دوسروں کے مقتولوں کی بات کون کرتا ہے ۔۔۔
آج 25 دسمبر ہے ۔۔۔ اور جناح کی سال گرہ کی تاریخ ہے ۔۔۔ اور ابھی چند روز پہلے 16 دسمبر آیا تھا ۔۔۔ 16 کے ہندسے کا دکھ ۔۔۔ 25 کے ہندسے کی خوشی سے کہیں بڑا تو نہیں ہوگیا ۔۔۔؟ نہیں نہیں ۔۔۔ 25 کے ہندسے کی خوشی ۔۔۔ 16 کے ہندسے کے دکھ سے بڑی ہے ۔۔۔ 25 کے ہندسے کی خوشیوں کے رنگ ۔۔۔ ماہ رنگ کے آنسوؤں کے رنگوں سے ذیادہ خوش رنگ ہیں ۔۔۔ ماہ رنگ کا کیا ہے ۔۔۔ روئے گی ۔۔۔ چیخے گی ۔۔۔ دھکے کھائے گی ۔۔۔ کبھی ایک جگہ اور کبھی دوسری جگہ دھکیلی جائے گی ۔۔۔ اور اگر بچ گئی تو ۔۔۔ تھک ہار کر ۔۔۔ ان کو ساتھ لے کر واپس چلی جائے گی جن کے ساتھ آئی تھی ۔۔۔
آج جناح کی سال گرہ کا دن ہے ۔۔۔ تاریخ اگرچہ وہی ہے ۔۔۔ دن پتا نہیں کون سا ہوگا ۔۔۔ لیکن آج خوش ہونے کے ساتھ ساتھ پروین شاکر کی طرح ۔۔۔ ایک عجیب سا ملال بھی ہے ۔۔۔ سال گرائیں ہمیشہ سے مجھے اچھی لگتی ہیں ۔۔۔ اور میں انہیں منانے کا اہتمام بھی کرتا ہوں ۔۔۔ مجھے یاد ہے ۔۔۔ اوائلِ نوجوانی میں ۔۔۔ عبید اللہ علیم کی ایک نظم بہت پسند تھی ۔۔۔ اس کی کچھ سطریں تو میرے لئے ضرب المثل ہی بن گئیں ۔۔۔ جب کسی کی سالگرہ ہوتی ۔۔۔ اسے لکھ بھیجتا ۔۔۔۔
’’ آج تمہاری سال گرہ ہے ۔۔۔
دیکھو ۔۔۔ ہم کو ۔۔۔ یاد ہے نا! ۔۔۔”
آج اسی نظم کی چند اور سطریں یاد آ رہی ہیں ۔۔۔۔
’’کیسے کیسے خواب بنے ۔۔۔
رنگ برنگے خواب چنے ۔۔۔
خواب ۔۔۔ ہر اک ۔۔۔ برباد ہے ناں ۔۔۔
آج ۔۔۔ تمہاری سالگرہ ہے ۔۔۔
دیکھو ۔۔۔ ہم کو ۔۔۔ یاد ہے نا ۔۔۔‘‘