سات اکتوبر 2023 کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک نئی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس سے پہلے عشروں تک یہاں کے معاملات پر امریکا اور اس کی پروردہ ریاست اسرائیل کا کنٹرول تھا۔ اسرائیل کا اثرورسوخ مشرق وسطیٰ میں مسلسل بڑھ رہا تھا، اور امریکا اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلسل متحرک رہتا تھا۔ جبکہ روس اور چین جیسی طاقتیں مشرق وسطیٰ سے دور بلکہ بہت دور تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا، جیسے انہیں مشرق وسطیٰ سے کوئی سروکار ہی نہیں۔
تاہم 7اکتوبر سے مشرق وسطیٰ یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہ اچانک اسرائیل پر ٹوٹ پڑے۔ اسرائیلی خود اس اچانک ، بھرپور حملے پر انگشت بدنداں رہ گئے۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی مارے گئے، ایک بڑی تعداد میں اسرائیلی حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے ہاں قید ہوگئے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے اتحاد نے اسرائیل کو غزہ کے جال میں پھنسا لیا ہے۔ اب تک اسرائیل قریباً 500 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کرچکا ہے جبکہ بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی زخمی ہوکر معذور ہوچکے ہیں، اسی طرح ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی بڑی تعداد تباہ ہوچکی ہیں۔
تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اسرائیلی فوج اور اس کے دفاعی نظام کا زعم ایک چھناکے سے ٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔ سمجھا جاتا تھا کہ اسرائیل کا انٹیلی جنس نظام بہت مضبوط ہے لیکن فلسطینی مزاحمت کاروں کے حیران کن حملے کی اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھنک نہ پڑ سکی۔
پہلی بار ایسا ہوا کہ اسرائیل کے خلاف بیک وقت مختلف محاذ کھل گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے بھی اعتراف کیا کہ اسرائیل بیک وقت 7 محاذوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ یوش، غزہ، لبنان، یمن، عراق، ایران اور شام۔
ان سب محاذوں پر اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکا کے خلاف لڑائی تیز ہورہی ہے۔ عراق میں امریکی اڈوں پر بڑھتے ہوئے حملے اس بات کا بین ثبوت ہیں۔
یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر کا مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ وہ کسی بھی ایسے جہاز کو گزرنے کی اجازت نہیں دے رہے جو اسرائیل کے لیے سامان وغیرہ لے کر جارہا ہو۔ اب اسرائیل کو اپنی تجارت کے لیے ایک بہت طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔
امریکا نے بحیرہ احمر کا کنٹرول واپس لینے کے لیے ایک کثیر ملکی منصوبہ بنایا جس میں بنیادی کردار بحیرہ احمر کے ارد گرد عرب ممالک کا تھا لیکن اب تک امریکا کو کامیابی نہیں مل سکی کیونکہ ان عرب ممالک نے اس منصوبے میں شریک ہونے سے صاف انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبے میں شریک ہوکر اپنی معیشت کو تباہ و برباد نہیں کرسکتے۔
جنگ غزہ کے تناظر میں عالمی منظرنامہ میں تبدیلی کا ایک بڑا مظہر یہ بھی ہے کہ اب روس، چین، ترکیہ اور قطر جیسے ممالک مسئلہ فلسطین میں باقاعدہ دخیل ہوگئے ہیں۔ اب مشرق وسطیٰ کے تنازعات حل کرنے کا واحد ٹھیکے دار امریکا نہیں ہے۔ امریکا ان تنازعات کے حل کے لیے قطر اور ترکیہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔
تاریخ میں پہلی بار چین اور روس بھی مشرق وسطیٰ کے معاملات میں باقاعدہ سرگرم ہوئے ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں ممالک کے رہنما مسلسل مشرق وسطیٰ کے تنازعات کی تشخیص بھی کر رہے ہیں اور اس کے حل کے لیے بیانات بھی دے رہے ہیں۔ امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ سرگرم عمل بھی ہوں گے۔
اس وقت پوری دنیا میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس سمیت تمام مغربی ممالک میں مسلسل احتجاج ہورہا ہے۔ یہ احتجاج رکنے میں ہی نہیں آرہا۔ اسرائیلی قیادت اس احتجاج کی طاقت کو محسوس کرتے ہوئے مغربی حکومتوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ ان کے اثر سے خائف نہ ہوں اور اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں۔
امریکا اور برطانیہ فلسطین کے حق میں بڑھتے ہوئے جذبات کو روکنے میں بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال پوری دنیا کو متاثر کر رہی ہے۔ یہی پہلو واضح کر رہا ہے کہ اب دنیا میں یونی پولر نظام نہیں چل رہا بلکہ ملٹی پولر نظام ہی چلے گا۔ اس میں اسرائیل شدید تنہائی کا شکار ہوچکا ہے اور اس کے مغربی دوست بھی سوچ رہے ہیں کہ وہ آخر کب تک اسرائیل کی آنکھیں بند کرکے حمایت جاری رکھیں گے؟
امریکا کے لیے مسئل یہ ہے کہ وہ ایک طرف یوکرائن میں روس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور دوسری طرف اسے اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطین میں جنگ لڑ رہا ہے۔ دونوں جنگیں طول پکڑ رہی ہیں۔ اس تناظر میں سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکا اور مغربی طاقتیں کب تک ان دونوں جنگوں میں شریک رہ کر اپنی معیشتوں کو سنبھال سکیں گے۔