آخری موقع

جمعہ 29 دسمبر 2023
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا میں اگر مصنوعی سیاست کی پیداوار ماپنے کا کوئی پیمانہ ہو اور ممالک کو اس پر پرکھا جائے تو پاکستان پہلے نمبر پر آئے گا۔ اسی طرح اگر مصنوعی سیاسی جماعتوں کا مقابلہ ہو تو اس میں بھی پہلا نمبر بلاشبہ ہمارا ہی ہو گا۔ اس کھیل کے ہم ماہر ہیں؛ سیاسی جماعتیں بنانے اور ان کو اقتدار میں لانے کے۔ لیکن ہمیشہ وہی سیاستدان اور جماعتیں تخلیق کاروں کے لیے دردِ سر بن جاتی ہیں اور پھر تخلیق کار اپنے تخلیقی کام کو مٹانے کے لیے ریاست کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ ماشا اللہ ہمیشہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے مملکت خدا داد کو بطورِ ریاست اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔

ہوش سنبھالتے ہی ہمارے کانوں میں آواز پڑی تھی کہ پاکستان کو نازک صورتحال کا سامنا ہے۔ تب سے اب تک اس بات نے ہمارے کانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ لیکن اگر سسٹم کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو اس وقت ملک واقعی نازک حالت میں ہے۔ ریاستی نظام کاغذات کی حد تک کام کر رہا ہے مگر حقیقت میں سارا سسٹم ٹھپ ہوا پڑا ہے۔ کسی محکمے کے پاس فنڈز نہیں ہیں کہ وہ اپنے معمول کے کام چلا سکے۔ محکموں کے پاس دفتری کام چلانے کے لیے کاغذات خریدنے کے پیسے تک نہیں۔ ترقیاتی کام نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کر دیا گیا کہ گزشتہ 2 سالوں میں قریباً آدھے پہیے رک گئے ہیں اور پیٹرولیم لیوی کی شکل میں جمع ہونے والا ٹیکس بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ زیادہ ہونے کے بجائے کم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہمیں امید تھی کہ پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد کچھ وقت تک سختی رہے گی مگر استحکام آئے گا اور اس استحکام کا تعلق یقیناً سیاسی استحکام میں مضمر ہے۔ مگر ایک ایسے وقت میں جب نئے انتخابات ہو رہے ہیں اور جس طریقے سے تحریک انصاف کو نشانے پر لیا گیا ہے، اس استحکام کا خواب چھناک سے ٹوٹنے کو ہے۔

اس سے پہلے بھی سیاسی جماعتیں توڑی گئیں، جماعتوں کے اندر سے جماعتیں پیدا کی گئیں لیکن ہم نے ایسے کبھی نہیں دیکھا کہ اس بھونڈے طریقے سے کسی سے الیکشن کے پیپرز چھینے گئے ہوں، سیاسی کارکنوں کو دن دہاڑے اغوا کیا گیا ہو۔ میں آج بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ تحریک انصاف موجودہ بدترین حالات کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کی حمایت کریں اور اس کا سب سے بڑا نقصان بھی ملکی استحکام کو ہو۔ تحریک انصاف کو ناپسند کرنے کے میرے پاس سو جواز ہوں گے لیکن اس بات کو ماننے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ اس وقت عوامی سطح پر تحریک انصاف کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے۔ اور اگر اسی طرح زبردستی لوگوں کی خواہشات کا گلہ گھونٹنے کی کوشش جاری رہی تو آئندہ الیکشن کا ان بدترین حالات میں استحکام کا سبب بننے کا امکان قطعی ختم ہو جائے گا۔

پ نے ان کو رگڑا دیا، تحریک انصاف کے پورے ڈھانچے کو ہلا دیا اور جس طریقے سے پختونخوا میں پارٹی کے ہونے والے کنوینشنز میں شیرافضل مروت نے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگوائے، اگر اسی طرح ان کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا تو ان کی مقبولیت کی ہوا ویسے ہی نکلنی تھی۔ ہوا کیوں نکلنی تھی کا جواب نہ ہی ڈھونڈیں تو بہتر ہوگا مگر اس وقت تک جو کیا گیا ہے اس سے البتہ ایک جواب ضرور ملتا ہے کہ آنے والے انتخابات ملک کے لیے استحکام کے بجائے سسٹم کو مزید عدم استحکام کا شکار بنائیں گے۔

ملک کو اس وقت تین چار محاذوں پر شدید مشکلات کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں شدت آتی جائے گی جن میں سب سے پہلے معاشی محاذ ہے جس کا کوئی شارٹ ٹرم حل نظر نہیں آرہا۔ دوسرا مسئلہ دہشت گردی ہے اور افغانستان کے ساتھ بگڑنے والے حالات ہیں جو آنے والے مہینوں میں مزید مشکل فیصلوں کے متقاضی ہوں گے۔ ایسی صورت میں ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اندرونی سیاسی استحکام کی ہوگی۔ تیسرا مسئلہ سفارتی بھی ہے جس کو اگر حقیقت کی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو ہمارے دعوؤں کے برعکس اس وقت کوئی ایسا ملک باقی نہیں رہا جو ہم پر یا ہماری پالیسیوں پر اعتماد کر رہا ہو۔

خلاصہ یہ کہ اگر آپ آنے والے انتخابات کو اس طریقے سے متنازع بناتے ہیں اور مرضی کی چیزیں کرتے ہیں تو آپ ان نتائج کے ذمہ دار کہلائیں گے جو مستقبل قریب میں خدا نخواستہ سامنے آ سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ یہ ہمارے پاس آخری موقع ہے باقی مرضی ان کی ہے جن کی چلتی ہے۔ عمران خان یا کوئی بھی سیاسی لیڈر اگر سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا ہے تو اس کا پیمانہ چھپا ہوا کیوں ہے؟ سیاستدان مجرم بنتے ہیں لیکن ان کے جرائم کا تعین کرنے والا سسٹم کے بجائے اشخاص کیوں ہیں؟ 2018 میں ایک مستحکم ہوتی ہوئی معیشت کو کون سے ڈاکٹرائن کے تحت دھڑام سے گرا دیا گیا تھا اور اس عظیم غلطی پر کن افراد کو سزا دی گئی؟ اگر کوئی مجرم نہیں ملا تو پھر وہی سوال بنتا ہے کہ اشخاص کی مرضی سے چلنے والے نظام بالکل اس طرح یکطرفہ انصاف کرتے ہیں۔ لہٰذا یہی وقت ہے اور آخری موقع بھی کہ سیاستدانوں پر اعتبار کیا جائے نہ کہ اپنی لامحدود طاقت پر۔۔!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

عالمی مقابلہ حسن سے واک آؤٹ کرنے والی فاطمہ بوش مس یونیورس 2025 کا تاج لے اڑیں

لاہور  سے مختلف سیاسی رہنماؤں نے استحکامِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی

وفاقی آئینی عدالت میں سائلین کے لیے انفارمیشن اور آئینی ڈیسک قائم

صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں آج عام تعطیل کا اعلان

اسکولوں میں بچوں کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟