جماعت اسلامی عام انتخابات میں کامیاب کیوں نہیں ہو پاتی؟

جمعہ 29 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جماعت اسلامی کی تاریخ پاکستان کے ساتھ ساتھ چلی آ رہی ہے، کوئی بھی تحریک ہو، فلاحی کام ہوں، جماعت اسلامی ملک کی مین اسٹریم سیاست میں اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے، یہ ایسا تناور درخت ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط دیکھائی دیتی ہیں لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی عام انتخابات کے وقت یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ جماعت اسلامی صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی کیوں حاصل نہیں کر پاتی۔

اس سوال کے جواب کی کھوج میں ہم نے ماہرین سے رائے لی اور  وجہ جاننے کی کوشش کی۔  ماہرین کی اپنی اپنی رائے ہے لیکن کراچی کے مقامی انتخابات کو اگر مثال بنا کر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو کچھ حد تک تصویر واضح ہونے کا امکان ہے۔

ماہرین کے مطابق کراچی کے ووٹرز کی تعداد اس وقت کم و بیش 95 لاکھ ہے اور لوکل باڈیز الیکشن میں ٹرن آؤٹ  بہت کم رہا جس میں جماعت اسلامی یہ دعویٰ کرتی دیکھائی دی کہ وہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت ہے لیکن ماہرین کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بائیکاٹ کے باعث ووٹرز بہت کم تعداد میں گھروں سے نکلے لیکن جماعت اسلامی کا ووٹر ووٹ ڈالنے نکلا بلکہ لوکل انتخابات میں دیگر جماعتوں سے وابستہ لوگوں نے بھی شہر کے مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کو ووٹ دیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی و صوبائی الیکشن میں ناصرف ٹرن آؤٹ بڑھے گا بلکہ ہر جماعت اپنے منشور  اور امیدوار کے ساتھ بھرپور انداز میں میدان میں اترے گی ایسے میں جماعت اسلامی کا ووٹ تو وہی ہے لیکن دیگر جماعتوں کی نظر اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکالنے پر مرکوز ہوگی۔

اس حوالے سے کالم نگار و پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ جو بھی مذہبی جماعتیں ہیں ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی خاص فرقے کی نمائندگی کرتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں اتنا ووٹ نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے 1970 میں بھی کوشش کی تھی لیکن صرف 2 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اسی طرح 1977 میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے حوالے سے یہ ضرور ہوا کہ بلدیاتی انتخابات میں جب دوسری بڑی جماعتیں بائیکاٹ کرتی ہیں تو پھر جماعت اسلامی ووٹ لے لیتی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے میئر یا ناظم کی سیٹ حاصل کر لیتی ہے لیکن جب بھی دوسری جماعتوں نے باقاعدہ حصہ لیا تو تب جماعت اسلامی اکثریت نہیں حاصل کر پائی۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے اس حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ مقامی مسائل یا محلے کے معاملات مختلف ہوتے ہیں جس میں جماعت اسلامی ایک بہتر تنظیم کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی ایک انتہائی منظم تنظیم ہے، ان کے پاس خدمت خلق کے لیے ادارے موجود ہیں جس وجہ سے ان کا لوگوں کے ساتھ ایک رابطہ رہتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی مقامی انتخابات میں بہتر کارکردگی ہوتی ہے۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں عوام کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کی سیاست مسلکی زیادہ ہوتی ہے اگر ایک خاص مسلک سے آپ کاتعلق ہے تو دوسرے مسلک  کا ووٹر آپ کو ووٹ نہیں دے گا اسی وجہ سے جماعت اسلامی قومی و صوبائی سطح پر پروان نہیں چڑھ سکی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انہیں نشستیں ضرور ملیں لیکن اس وقت ایک خاص فضاء تھی امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا ہوا تھا جس کے خلاف رد عمل خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں نظر آیا، یہاں امریکا کی حمایت کے خلاف ایک رد عمل کے طور پر متحدہ مجلس عمل کو ووٹ ملا جس کے نتیجے میں انہوں نے وہاں حکومت بھی بنائی۔

سینئیر صحافی اے ایچ خانزادہ نے اس موضوع پر وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابات چاہے لوکل ہوں، صوبائی ہوں یا قومی سطح کے جماعت اسلامی کی کارکردگی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی کارکردگی تو جوں کی توں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الخدمت پاکستان جماعت اسلامی کا ادارہ ہے اور وہ پاکستانی شہریوں کی بلا امتیاز خدمت کر رہا ہے، قصور جماعت اسلامی کی کارکردگی کا نہیں بل کہ کارکردگی تو اپنی جگہ موجود ہے بحرحال یہ لوگوں کی ترجیحات کا معاملہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ووٹ دیتے وقت لوگ اپنی ترقی کو ترجیح نہیں دیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کو صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے بھی ووٹ ملتا ہے لیکن تعداد بہت کم ہوتی ہے جب لوگوں کو احساس ہو جائے گا کہ ان کی صحیح نمائندگی کون کر رہا ہے تو جماعت اسلامی کو نا صرف ووٹ ملے گا بلکہ جماعت اسلامی حکومت بھی بنا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جماعت اسلامی کی کارکردگی کی نہیں بلکہ لوگوں کی کارکردگی کا مسئلہ ہے۔

اے ایچ خانزادہ کا کہنا تھا کہ اس شہر میں جماعت اسلامی کے 12 سے زیادہ اسپتال چل رہے ہیں جو کسی ووٹ، کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشست کے مرہون منت نہیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تھرپارکر میں اسپتال کی بات ہو، پانی کی فراہمی ہو یا ملک بھر میں دیگر کام جو حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں وہ جماعت اسلامی نے کرکے دکھائے جب کہ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے تو آج بھی اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp