کہتے ہیں کہ عورت حسین ہو اور پھر سمجھدار بھی ہو تو یہ ’لیتھل کومبینیشن ‘ کہلاتا ہے لیکن نور ظہیر نے اپنے نئے افسانوں پرمشتمل کتاب ’سیانی دیوانی‘ میں عورت کے انکار کرنے کی جراًت کو بھی اس ’کومبینیشن‘ میں شامل کردیا ہے۔ ہمارے جیسے پدر شاہی معاشرے میں کوئی عورت کسی مرد کو ’ریجیکٹ‘ کرے نہ بھئی نہ ۔۔یہ بھلا کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے؟
لیکن نورظہیر کے افسانوں کی کم و بیش تمام ’سیانی‘ اور ’دیوانیوں‘ نے یہ کر دکھایا ہے۔
نور ظہیر کا تعلق ایک علمی ادبی اور سیکولر گھرانے سے ہے۔ ان کے والد ’سجاد ظہیر‘ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی اور کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن جبکہ والدہ ’رضیہ سجاد ظہیر‘ لکھاری، ڈراما آرٹسٹ، ترجمہ نگار اور پارٹی کی کارکن بھی تھیں۔ بلاشبہ ایسے گھر انے کی اولاد ہونے پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے گو کہ ایسے علم دوست والدین اور ان کے حلقہ احباب کے گُن نور اپنی ذات میں نمایاں ضرور ہیں لیکن سماج میں پہچان خود اپنی محنت اور لگن سے بنائی۔
7 سال کی عمر میں پہلی کہانی لکھی۔ پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب تک نور ظہیر کی 6 انگریزی میں اور 6 اردو کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ نور ناصرف لکھاری ہیں بلکہ ایک بہترین کتھک، بھارتی ناٹیم کی رقاصہ اور انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسیشن کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔
’دیکھئےصاحب! میرے لیے افسانہ نگاری سیکھنے اور مستقل مشق کرتے رہنے کا ہنر ہے کوئی روحانی ضرورت یا الہام ہونے کا دعویٰ نہیں کروں گی‘۔ نور ظہیر نے اپنے مخصوص لکھنوی انداز میں وضاحت کی۔
بقول نور ظہیر ، کہ عورت کے لیے خود سے ہم کلام ہونا بے حد ضروری ہے اور’خود دوستی ‘ کو پختہ کرنے سے بہترین اور گہری دوستیاں بنتی ہیں۔ جب تک آپ خود سے دور رہیں گے دوسروں سے بھی قربت حاصل نہیں کر سکتے۔
نور ظہیر میرے لیے نور آپا ہیں۔ ان کی پچھلی 2 کتابیں ’ میرے حصے کی روشنائی‘ اور ’سیاہی کی ایک بوند‘ میں انہوں نے اپنی اور اپنے والدین کی زندگی کے ساتھ ساتھ انڈین سماج کی رواداری کے قصوں کو جس دلچسپ پیرائے اور نت نئے لفظوں میں پرویا ہے اس نے مجھے ان کا مزید گرویدہ بنا دیا۔
سیانی دیوانی ابھی حال ہی میں ’مکتبہ دانیال‘ کے اشاعتی ادارے نے شائع کی اور اس کی رونمائی کراچی میں اردو عالمی کانفرنس میں کی گئی۔
سیانی دیوانی میں نور آپا کے 21 افسانوں پر مشتمل کتاب ہے جو ان کے مشاہدات اور تجربات ہیں یا یوں کہیے کہ سچے واقعات پر مبنی کہانیاں لکھی گئی ہیں۔
نور ظہیر کی ان تمام کہانیوں کی عورت سیانی بھی ہے اور دیوانی بھی، عورت کا ایک انوکھا مرکب! جس میں کہیں وہ چُلبُلی سی ادا ہے تو کہیں ایک پرکیف لطافت کا احساس لیے ہوئے ہے۔ ایک طرف ظلم و ستم کی ماری ہے تو کہیں تناور درخت کی مانند قد آور و مضبوط ہے۔ لیکن ساری کہانیوں کا خلاصہ عورت کا اپنی ذات سے جلد یا بدیر ملاقات کرنا، اپنی اہمیت کا احساس ہو جانا ہے اور پھر اسے اپنی مرضی کی زندگی جینی ہے۔ نور آپا کے افسانوں کی عورتیں صدیوں سے خود پر مسلط مرد کو ہی نہیں بلکہ اپنی صنف کو بھی ’ناں‘کہنا یا ’ انکار‘کرنا جانتی ہیں۔ چاہے وہ ’تنہائی بھوجی ‘ کی زرینہ ہو جو اپنی خودنوشت لکھنے پر اپنی اس بیٹی تک کو ناراض کر دیتی ہے جسے اس نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔
یا ’ضروری مال‘ کی نیرجا ہو جس کے پتی کو اپنی پتنی کی بیماری سے زیادہ اپنے مال اسباب کی زیادہ تشویش تھی۔
نور آپا کی ناہید کے حسین لمبے بال اور دلّی کی بارش دونوں ہی جیسے قید سے آزاد ہو کر ’برآمدے کے پیڑ‘ میں ایک روز خوب جھوم کر برستے ہیں۔
بالکل اسی طرح مبینا نے ’ اتنا ہی سہی‘میں صرف ایک رات کے انوکھے ملن میں سماج کے بنائے ہوئے گھسے پٹے رواج و اصول توڑکر پوری زندگی جی لی تھی۔
نور ظہیر نے اپنے کئی افسانوں میں سماج کے دہرے معیار کو بھی بڑی خوبصورتی سے دربدر، ویلنٹائن ڈے، دہریہ کنبہ، متاؤتر اور احتجاج کا بوٹا جیسی کہانیوں میں اجاگر کیا ہے۔
’حسین عورت کی تشریح کے اتنے بیانوں، وضاحتوں اور تعریفوں میں کبھی اس کی کچھ پڑھتے ہوئے بات کیوں نہیں ہوئی؟ اگر عورت کے پڑھنے کو موضوع بھی بنایا گیا تو وہ صرف ’پریم پتر یا محبت نامہ ‘ ہی رہا’۔۔کیونکہ ایک پڑھنے لکھنے والی عورت سمجھدار ہوگی سو مرد ایسی عورت کو بھلا کیوں درخور اعتنا سمجھے گا؟
’معمولی لڑکی‘ میں نور ظہیر نے کتاب پڑھتی لڑکی کو خوبصورتی کی معراج قرار دیا کہ شادی ہونے یا ماں بننے کے بعد کتاب سے رشتہ کیوں ختم کیا جائے۔
ویلنٹائن ڈے کو نور اپنے افسانے میں جشنِ عشق گردانتی ہیں ’عشق‘ مرد اور عورت میں برابری کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔ اگر جوانی اپنے عشق کا جشن منارہی ہے پھر تو یہ جشن سماجی دباؤ کو خاطر میں لائے بنا منتا رہے گا۔
الف لیلیٰ کی 1001 کہانیوں کی خالق شہرزاد کو نور ظہیر نے ’ اپنی والی شہرزاد ‘ میں ایک ایسی عورت کے روپ میں پیش کیا جو شہزادے کی تمام پیشکش ٹھکرانے کی ہمت رکھتی ہے ۔ حتی کہ شہرزاد کا دل پگھلانے کے لیے شہزادے کی آہ وزاری بھی ناکام رہتی ہے۔
ایک جانب ’کگار‘ میں پگلی کے آگے اپنی روداد سناتی عورت سوچتی ہے کہ ’سامعین کا پاگل ہونا داستان گو کے لیے کتنا اطمینان کا باعث ہوتا ہے‘۔
وہیں نور کی ’چکر گھنی ‘کی سکینہ 5 بار حلالہ جیسی رسم کی چَکی میں پسنے کے بعد اب ایک نئے، لیکن اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھلنے کو تیار بیٹھی ہے۔
مصنفہ نے بڑا سوچ کر کتاب کا عنوان اس کہانی سے منسوب کیا ہے ’سیانی دیوانی ‘۔۔۔اس افسانے میں نور ظہیر سماج سے سوال کرتی ہیں کہ بڑے گھر کی بہو اپنے نرگسیت اور اذیت پسند شوہر سے طلاق لینے پر جگت ’دیوانی‘ بھلا کیوں کہلائی جائے ؟ اگر عورت اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرے تو دیوانی کہلائے جبکہ مرد اگر نرگسیت اور نفسیاتی مرض کا مارا بھی ہو تو یہ سماج اسے آسمان پر بٹھاتا ہے۔
’سگریٹ والا مزار ‘ میں مصنفہ انسانوں کی بستی میں عورت مرد کے درمیان کھینچی لکیر کو بڑے طنزیہ انداز میں بیان کرتی ہیں کہ مرد بے شک 10سالہ لڑکا ہی ہو، پر ہے تو مرد، عورت کو شرم وحیا کا پاٹ پڑھانے کا ٹھیکہ تو اسی نے اٹھایا ہے۔
’نائیکا ابھیساریکا ‘ ایک ایسی دبنگ عورت کی کہانی جو زندگی میں کبھی کسی سے نہ ڈری لیکن کیا واقعی وہ بارش اور طوفان سے ڈرتی تھی؟ اس افسانے میں میت والے گھر میں عورتوں کے درمیان ہونے والے مکالمے ایسے محسوس ہوتے ہیں جیسے کہ ہم یہ سب پہلے سے سن چکے ہوں۔
نور ظہیر نے فطرت سے محبت کرنے کا بھی اپنی کہانیوں میں خوب پرچار کیا ہے جو اب عنقا ہوتا جارہا ہے۔ ان کے افسانے ’اب بھی کبھی کبھار‘ میں وہ عورت کے ایسے روپ کو سامنے لاتی ہیں جو اپنے آم کے پیڑ سے اپنی اولاد کی مانند محبت کرتی ہے۔
ساڑھی پر افسانہ لکھنا غالباً نور آپا کا ہی کمال ہے ۔’بالو چری ‘ ایک ایسی قیمتی ساڑھی کی کہانی ہے جسکی حرمت یا تو اس کا تخلیق کار ہی سمجھ سکتا ہے یا جو اسے احسن طریقے سے برتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ساڑھی کو کانٹ چھانٹ کر ٹکڑے کرنے والا کیا جانے کہ روح کو چھلنی نہیں کیا جاتا۔
نور ظہیر کا ہر افسانہ اپنے اندر ایک جدت اور پیغام لیے ہوئے ہے۔ اچوتھے موضوعات پر ان کا قلم اتنی روانی سے چلتا ہے جن پر ہماری نظر کبھی گئی ہی نہ تھی۔ پھر کمال ہے لکھنوی اردو کے ان الفاظ کا جو اب متروک ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے تمام افسانوں میں چاشنی سی گھول دی ہے۔
قدرت کی ہر کاریگری یاتخلیق محبت کی طلبگار ہے لیکن سماج نے سب کو حصوں میں بانٹ کر تخلیق کار کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔
نور کے افسانے بالو چری کی ساڑھی ہو یا دیگر کہانیوں کی عورتیں، مرد کے اس سماج سے ایک ہی شکوہ کرتی نظر آتی ہیں کہ
’ آپ ایک انسان ہو کر بھی فن تخلیق اور کاریگری کا درد نہیں سمجھتے‘؟ ۔۔۔تعجب ہے۔