8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے قومی و صوبائی انتخابات میں جہاں پاکستان کے دیگر کئی علاقوں میں دلچسپ انتخابی دنگل دیکھنے کو ملیں گے وہاں صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اور صوبائی حلقوں میں بھی انتہائی دلچسپ اور کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں۔ اس ڈویژن کے 3 قومی حلقوں (این اے-43، این اے۔44، این اے۔45) اور 6 صوبائی حلقوں (پی کے۔108 ٹانک، پی کے۔111 پہاڑ پور، پی کے۔112 سٹی ٹو، پی کے۔113 سٹی ون، پی کے۔114 پرواہ، اور پی کے۔115 کلاچی/درابن) پر آئندہ انتخابات میں صورتحال انتہائی دلچسپ ہونے کا امکان ہے۔
ڈی آئی خان شہر کی سب سے اہم قومی نشست این اے۔44 ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان تحصیل اور کچھ مضافاتی علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس نشست پر پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار اور سابق وفاقی وزیر سردار علی امین گنڈاپور نے جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان کو واضح شکست سے دوچار کر کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کیا اور پہلی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ روایتی طور پر جمعیت علماء اسلام، پی پی پی اور مقامی دھڑوں کی سمجھی جانے والی اس قومی نشست پر 2018 کے انتخابات میں علی امین گنڈاپور نے مولانا کے مقابلے میں 80 ہزار ووٹ لیکر آئندہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ گو کہ علی امین گنڈاپور روپوش ہیں لیکن این اے۔44 ڈیرہ۔1 کی نشست پر ان کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا چکے ہیں۔ یہ بات واضع ہے کہ اگر وہ یا ان کا حمایت یافتہ امیدوار انتخابی دنگل میں کود پڑتا ہے تو جمعیت علماء اسلام کے لیے نہ صرف اس قومی نشست پر مقابلہ کانٹے دار ہوگا بلکہ جمعیت کو اس نشست سے ہاتھ بھی دھونے پڑ سکتے ہیں۔ اس قومی نشست پر متوقع طور پر سابق سینیٹر اور مسلم لیگ(ن) کے امیدوار وقار احمد خان اور پی پی پی کے فیصل کنڈی جمعیت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے میدان میں ہونگے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی دوسری قومی نشست این اے۔45 ٹو دیہی نشست جس میں تحصیل پرواہ، تحصیل درازندہ اور تحصیل درابن پر مشتمل علاقہ شامل ہے۔ اس حلقے سے 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار اور پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لینے والے محمد یعقوب شیخ نے مولانا فضل الرحمان کو تقریبا 20 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔ 2018 سے 2021 تک مرکز اور صوبہ میں حکومت ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے اس حلقے پر کوئی توجہ نہ دی جس کی وجہ سے یعقوب شیخ غیر مقبول ہو چکے ہیں جو کچھ ماہ پہلے عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر تحریک انصاف پارلیمنٹیرین میں شامل ہوگئے تھے۔ آمدہ انتخابات میں یہاں سے مولانا فضل الرحمان کی بجائے ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبید الرحمان انتخاب لڑ رہے ہیں جبکہ سابق ایم این اے ٹانک داور کنڈی کے چھوٹے بھائی اور سابق ضلع ناظم ٹانک مصطفی خان کنڈی بھی خم ٹونک کر میدان میں کود چکے ہیں اور کئی ماہ سے خاموش لیکن بہت متحرک انداز سے انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ اس قومی حلقہ سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سابق سینیٹر وقار احمد خان بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کی نشست این اے۔43 ٹانک / کم ڈیرہ پر پچھلے ٹینور میں مولانا فضل الرحمان کے فرزند مولانا اسعد محمود ایم این اے تھے جو پی ڈی ایم کی شہباز حکومت میں وفاقی وزیر رہے۔ اس نشست پر اگلے انتخابات میں سابق ایم این اے داور خان کنڈی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر میدان میں اتریں گے جبکہ اس بار مولانا اسعد محمود کی بجائے مولانا فضل الرحمان خود انتخاب لڑ رہے ہیں۔ نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں این اے۔ 43 ٹانک / کم ڈیرہ میں این اے۔45 ڈیرہ 2 کی تحصیل کلاچی، این اے۔44 ڈیرہ 1 کی یونین کونسل یارک اور پٹوار سرکل یارک جبکہ تحصیل پنیالہ کے علاقے شامل کیے گیے ہیں جس کا زیادہ فائدہ سابق ایم این اے داور کنڈی اور کسی حد تک مولانا فضل الرحمان کو ملے گا۔ یہاں سے دیگر امیدواروں میں مسلم لیگ(ن) کے سمیع اللہ برکی، ملک اسلم خان بیٹنی، پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما انور سیف اللہ خان، عوامی نیشنل پارٹی کے پیرزادہ ارشد منصور شاہ، عبداللہ ننگیال بیٹنی اور ملک رمضان شوری ہیں لیکن مجموعی طور پر اس حلقہ میں اصل مقابلہ داور خان کنڈی اور جمعیت کے درمیان متوقع ہے۔
جہاں تک صوبائی نشستوں کی بات ہے تو ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے صوبائی حلقوں میں پی کے۔108 ٹانک، پی کے۔111 پہاڑپور، پی کے۔112 سٹی2، پی کے۔113 سٹی 1، پی کے۔114 پرواہ اور پی کے۔115 کلاچی/درابن شامل ہیں۔ پی کے۔108 ٹانک ضلع ٹانک پر مشتمل صوبائی حلقہ ہے جس میں حالیہ مردم شماری کے بعد سب ڈویژن جنڈولہ بھی شامل کردیا گیا ہے۔ اس صوبائی نشست پر مسلسل 2 دفعہ جمیعت علماء اسلام کے امیدوار محمود بیٹنی کامیاب ہوتے آ رہے ہیں اور اگلے انتخابات میں بھی وہ اس صوبائی نشست سے مضبوط ترین امیدوار ہوں گے۔ محمود بیٹنی اس بار ہیٹ ٹریک کرنے کے موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں متعدد امیدوار میدان میں ہیں جن میں تحریک انصاف کے غلام قادر بیٹنی، پی ٹی آئی پی کے عرفان کنڈی، آزاد امیدوار ملک اسلم بیٹنی، ملک صابر بیٹنی، پیرزادہ ارشد منصور، مسلم لیگ(ن) کے شاہ نور اور دیگر امیدوار شامل ہیں۔ پی کے۔108 ٹانک پر سب سے کڑا مقابلہ محمود خان بیٹنی اور تحریک انصاف اور پی ٹی آئی پی کے درمیان متوقع ہے۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست پی کے۔111 پہاڑپور روایتی طور پر 2 خاندانوں میں بٹی ہوئی نشست ہے: پنیالہ کے خان جاوید اکبر خان مرحوم اور ان کے بیٹے احتشام جاوید اکبر خان جو پچھلے الیکشن میں یہاں سے انتخاب جیت چکے ہیں، اور بلوٹ شریف کے گدی نشین مخدوم زادہ مرید کاظم شاہ جو یہاں سے ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں۔ مرید کاظم شاہ کی وفات کے بعد اس نشست پر احتشام جاوید اکبر کی پوزیشن زیادہ مضبوط نظر آ رہی ہے اور اگر ان کے مقابلے میں کوئی متفقہ مضبوط امیدوار سامنے نہ آ سکا تو ان کی جیت یقینی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں احتشام جاوید اکبر نے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر یہاں سے کامیابی حاصل کی لیکن 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں وہ پارٹی کو خیرباد کہہ کر پارلیمنٹرین میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ احتشام جاوید اکبر جمعیت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے جا رہے ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ حلقہ مولانا فضل الرحمن کا آبائی حلقہ ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہاں سے جمعیت صوبائی نشست ہارتی آ رہی ہے۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی مولانا عبید الرحمن متعدد بار اس صوبائی نشست سے انتخاب لڑ چکے ہیں لیکن ہر بار کامیابی ان سے کوسوں دور رہی۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی صوبائی نشست پی کے۔112 سٹی 2 ڈیرہ کے مضافات پر مشتمل ہے۔ یہاں سے پچھلے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار احمد کریم کنڈی ایم پی اے منتخب ہوئے۔ وہ اگلے انتخابات میں بھی یہاں سے امیدوار ہوں گے لیکن الیکشن جیتنا ان کے لیے خاصا مشکل ہوگا کیونکہ یہاں سے جمیعت علماء اسلام کے انتہائی مضبوط امیدوار اور سابق ایم پی اے سمیع اللہ خان علیزئی مقابلے میں ہونگے۔ اس حلقے میں جمیعت علماء اسلام کا نظریاتی ووٹ بینک موجود ہے جبکہ علاقائی طور پر خان ازم اور برادریوں کا اثر و رسوخ بھی ہے اور وہ ووٹ جمیعت کے امیدوار کو پڑ سکتا ہے۔ سابق مشیر اطلاعات فیصل کریم کنڈی کے بھائی احمد کریم کنڈی نے بھی پچھلی حکومت میں یہاں کافی کام کرائے اور انکی حلقہ کی عوام میں خاصی مقبولیت ہے لہذا ان کی پوزیشن بھی مضبوط بتائی جا رہی ہے۔ اس حلقہ میں وی سی پوٹہ کے چئیرمین اور پی پی پی تحصیل ڈیرہ صدر ڈاکٹر ملک مشتاق احمد کا خاصا ووٹ بنک اور اثرورسوخ ہے۔ ڈاکر مشتاق کو احمد کنڈی کا سب سے قریب ترین ساتھی سمجھا جاتا ہے اس لیے احمد کنڈی پوٹہ پولنگ سے ہمیشہ جیتتے آئے ہیں۔ سٹی2 سے عوامی نیشنل پارٹی کے عبد الرحیم ایڈوکیٹ بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی سب سے اہم صوبائی نشست پی کے۔113 سٹی 1 ہے جہاں پچھلے 2 انتخابات میں مسلسل تحریک انصاف کے امیدوار سردار علی امین خان گنڈابور کامیاب ہوئے۔ 2013 کے انتخابات میں وہ پہلی بار غیر متوقع طور پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بنے جبکہ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے قومی اور صوبائی دونوں نشستیں جیتیں، قومی نشست برقرار رکھی جبکہ صوبائی نشست خالی کردی جس پر ضمنی انتخابات میں ان کے بھائی فیصل امین گنڈاپور کامیاب ہوئے۔ آنے والے انتخابات میں سٹی 1 کی اس نشست پر ہونے والے مقابلے کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جا رہا کیونکہ یہاں پر پچھلے دو، تین سال سے جمعیت علماء اسلام کے سرکرم رہنما کفیل احمد نظامی خاصے متحرک نظر آ رہے ہیں اور 2021 کے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل میئر ڈیرہ کی نشست پر انہوں نے اس وقت کے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے بھائی عمرامین گنڈا پور کا بھرپور مقابلہ کیا اور حکومتی مشینری کے تمام تر جھکاؤ کے باوجود 39 ہزار ووٹ لے کر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ کفیل احمد نظامی جمعیت علماء اسلام کے پی کے۔113 سٹی1 کے متوقع اور مضبوط امیدوار ہیں۔ اس شہری حلقے سے دیگر امیدواروں میں میاں خیل خاندان کے چشم و چراغ قیضار خان میانخیل پہلی بار میدان میں نظر نہیں آئیں گے اس بار وہ پی کی۔114 پرواہ سے پی پی پی کے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے ریحان ملک ایڈوکیٹ، پی پی پی کے عزیزاللہ علیزئی، مظہر جمیل خان علیزئی، ملک فرحان دھپ، انجینیئر امان الحق غزنی خیل، سہیل راجپوت، تنویر جتوئی، عوامی نیشنل پارٹی کے تیمور خان مروت اور دیگر کئی امیدوار اس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی صوبائی نشست پی کے۔114 پرواہ سیاست میں دلچسپ تاریخ کی حامل نشست ہے۔ یہاں سے سابق ایم پی اے اور سابقہ اپوزیشن لیڈر کے پی اسمبلی مولانا لطف الرحمان اگلے انتخابات میں ہیٹرک کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ سردار عنایت اللہ خان گنڈاپور کی وفات سے خالی ہونے والی اس نشست پر ضمنی انتخابات میں جیتے اور تب سے وہ مسلسل جیتتے آ رہے ہیں۔ گو کہ وہ اس حلقے سے تعلق نہیں رکھتے اور انکا آبائی صوبائی حلقہ پی کے۔111 پہاڑ پور ہے جو تحصیل پرواہ سے تقریباً 80 کلومیٹر دور ہے لیکن ترقیاتی کام اور عوامی مقبولیت کے پیش نظر اگلے انتخابات میں بھی ان کی پوزیشن انتہائی مضبوط نظر آ رہی ہے اور وہ ہارٹ فیورٹ امیدوار گردانے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے روایتی پرانے سیاسی خاندان میانخیل خاندان کے چشم و چراغ اور موجودہ تحصیل میئر فخر اللہ خان میانخیل سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور وہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا رخ میانخیل خاندان کی طرف موڑنے کے لیے پر امید ہیں۔ یہاں پی پی پی سے قیضار خان میانخیل، پی ٹی آئی پی کی طرف سے خالد سلیم استرانہ اور دیگر کئی امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں وفات پانے والے جمعیت تحصیل امیر سردار امتیاز خان بلوچ کی کمی جمعیت کو ضرور محسوس ہو گی۔ یقیناً امتیاز بلوچ کی وفات سے جمیعت علماء اسلام کو اس حلقے میں کافی بڑا سیاسی دھچکا لگا ہے لیکن پھر بھی مولانا لطف الرحمان کے کیے گئے ترقیاتی کام اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے اب بھی وہ اس حلقے کے مضبوط ترین امیدوار ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے روایتی حلقے پی کے۔115 کلاچی/ درابن پر ہمیشہ گنڈاپور برادری کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ ایک آدھ بار میانخیل خاندان کے امیداور بھی ایم پی اے منتخب ہوئے لیکن روایتی طور پر اس حلقے کو گنڈاپور خاندان کا حلقہ تصور کیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیرِ اعلیٰ سردار عنایت اللہ خان گنڈاپور یہاں سے متعدد بار ایم پی اے منتخب ہوئے۔ بعد ازاں ان کے بیٹوں سردار اسرار خان گنڈاپور، سردار اکرام خان گنڈاپور اور اب ان کے پوتے سردار آغاز خان گنڈاپور پچھلے انتخابات میں یہاں سے ایم پی اے منتخب ہوئے جبکہ اگلے انتخابات میں بھی وہ اس حلقے سے سب سے مضبوط امیدوار گردانے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ان کے روایتی حریف فتح اللہ خان میانخیل اس بار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں جبکہ فتح اللہ میانخیل کے بھتیجے اور میانخیل خاندان کے سدابہار ایم پی اے ثناء اللہ میانخیل کے فرزند موجودہ تحصیل میئر احسان اللہ میانخیل آغاز خان کا مقابلہ کریں گے۔ تحریک لبیک کے فریدون خان گنڈاپور بھی امیدوار ہیں۔
اگرچہ ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کی دیہی حلقوں میں جدید اور نوجوان سیاست نقب لگانے میں ناکام رہی ہے لیکن شہری حلقوں پر جمعیت علماء اسلام، خان خوانین، میانخیل خاندان اور مقامی سیاسی دھڑوں کا روایتی غلبہ اب کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ نوجوان طبقہ یہاں خاصا متحرک ہے اور وہ یہاں پر جمعیت علماء اسلام، پی پی پی اور میانخیل مخالف امیدوار کو ووٹ دے کر اپ سیٹ کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔