لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا واپس کرنے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس کرنے کے لیے مقامی وکیل کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار وکیل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ہمیں لیول پلئنگ فیلڈ بھی نہیں مل رہی بلے کا نشان بھی واپس لے لیا گیا ہے،الیکشن کمشنر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ تسلیم نہیں کررہا، پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر پشاور کے لیے بلے کا نشان دیا گیا ہے۔
جسٹس جواد حسن نے سوال اٹھایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں الیکشن کمشنر پنجاب کی اپیل زیر التوا ہے، کیا صوبائی الیکشن کمشنر اپنے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف فیصلہ کر سکتا ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے الیکشن کے معاملات میں دخل اندازی نہیں ہونی چاہیے؟
پی ٹی آئی وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پنجاب کے لیے لاہور ہائیکورٹ حکم جاری کر سکتی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلے کا نشان ہو گا اور پنجاب میں یہ نشان نہیں ہو گا۔
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف کو ایک ریسرچ ونگ بنانا چاہیے جو ریسرچ کر کے کیس فائل کرے، پشاور ہائیکورٹ میں الیکشن کمشنر پنجاب کی اپیل زیر التوا ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل کی درخواست کی مخالفت
اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل نے مقامی وکیل کی مخالفت کی اور مؤقف اپنایا کہ درخواست ناقابلِ سماعت ہے کیونکہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔
وکیل وفاقی حکومت نے مؤقف پیش کیا کہ یہ درخواست تحریک انصاف کی جانب سے دائر نہیں ہوئی، وکیل نے اپنے طور پر دائر کی ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کے معاملات میں دخل اندازی سے روک رکھا ہے۔
عدالت کے اہم سوالات
جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ کیا ہائیکورٹ ان معاملات میں دخل اندازی کر سکتی ہے جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہو، کیا جو ریلیف کسی اور عدالت سے ملا ہے۔ یہی ریلیف لاہور ہائیکورٹ دے سکتی ہے؟ ’کیا سیاسی جماعت نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 ( 5) کو چیلنج کیا ہے؟ درخواست گزار ان سوالات کے تحریری جواب جمع کرائے۔
عدالت نے درخواست گزار کو جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔