مسلم لیگ ن کے پارلمانی بورڈ نے 31 دسمبر تک ملک بھر سے تقریباً 23 سو انتخابی امیدواروں کے انٹرویوزمکمل کرلیے ہیں لیکن ابھی تک پارٹی کی جانب سے طرف سے کسی کو بھی ٹکٹ کنفرم کرنے کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی ہے حتٰی کہ ابھی تک لاہور کے 14 حلقوں کے ٹکٹوں کا فیصلہ بھی نہیں ہو سکا ہے۔
ن لیگ کے سینئر رہنماؤں کی اب بیٹھک ماڈل ٹاؤن پارٹی سیکریٹریٹ کے بجائے جاتی امرا میں ہو رہی ہے، 35 رکنی پارلیمانی بورڈ نے بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ابھی کوئی حتمی رپورٹ لیگی قیادت کو پیش نہیں کی ہے۔
لیگی ذرائع کے مطابق اس وقت ٹکٹوں کی تقسیم پارٹی کا اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، پنجاب سمیت پورے پاکستان میں امیدوار ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، 8 فروری الیکشن کا دن ہے، جس میں لگ بھگ 35 دن باقی رہ گئے ہیں، لیکن ابھی تک فیصلہ نہ ہونے کی بڑی وجہ پارٹی قیادت کنفیوژن کا شکار ہے کہ اگر الیکشن نہ ہوئے اور امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیے گئے تو پارٹی میں پھوٹ پڑسکتی ہے۔
ابھی مقتدر حلقوں کی طرف سے بھی الیکشن کروانے کے کوئی واضح اشارے نظر نہیں آرہے ہیں، لیگی پارلیمانی بورڈ کی جانب سے ممکنہ امیدواروں کے انٹرویوز کا عمل قائدین نے پرجوش انداز میں مکمل کیا لیکن 14 دسمبر کو جب لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا نوٹیفکیشن معطل کیا تو پارٹی قائدین کا تاثر تھا کہ اب الیکشن وقت پر ہونا مشکل نظر آرہے ہیں۔
یوں تو اس معاملے پر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا لیکن پارٹی قیادت تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے اگر پارٹی کو الیکشن ہوتے دکھائی دیے تو ٹکٹ جاری کا کرنے کا عمل آئندہ چند روز میں شروع ہو جائے گا ورنہ قیادت ٹکٹ دینے کافیصلہ موخر کردے گی، کیونکہ نواز شریف نہیں چاہتے کہ اس مشکل صورتحال میں ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض عناصر سے کوئی سیاسی نقصان ہو۔
سینئر لیگی رہنما اور نواز شریف کے سابق ترجمان محمد زبیر جیسے رہنما ٹی وی پر بیان دے رہے ہیں جس سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہورہی ہے، اسی طرح اور کئی نامور رہنما، جو بظاہر ٹی وی پر تو مقبول ہیں لیکن انتخابی حلقوں میں ان کی وہ مقبولیت نہیں، کو جب ٹکٹ نہیں ملے گا تو وہ میڈیا میں پارٹی کے خلاف بات کریں گے جو انتشار کا باعث بنے گا۔
اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے انتخابی ٹکٹ کی تقسیم کا معاملہ اب نواز شریف سمیت شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز، اسحاق ڈار، مریم اورنگزیب اور رانا ثناء اللہ ہی دیکھ رہے ہیں۔
کیا سیٹ ایڈجسمنٹ بھی ایک وجہ ہے؟
لیگی ذرائع نے بتایا کہ ٹکٹوں میں تقسیم میں تاخیر کی دوسری بڑی وجہ سیٹ ایڈجسمنٹ ہے ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ پارٹی کسی جماعت کے ساتھ کہاں پر سیٹ ایڈجسمنٹ کرنا چاہتی ہے مثال کے طور پر لاہور کا حلقہ این اے 117 ہے جہاں سے آئی پی کے صدر علیم خان الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں سے ن لیگی امیدوار ایاز صادق اور ملک ریاض نے کاعذات جمع کروائے ہیں۔
اس کا فیصلہ نہیں ہو پارہا کہ یہاں پر سیٹ ایڈجسمنٹ کرنی ہے یا پارٹی اپنے امیدوار کو ٹکٹ جاری کرے گی، اسی طرح ضلع گجرات میں عابد رضا کوٹلہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ق کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ قبول نہیں کریں گے، عابد رضا کوٹلہ مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنے والوں میں سے ہیں، وہاں سیٹ ایڈجسمنٹ کی صورت میں ہوسکتا ہے پارٹی انہیں ٹکٹ جاری نہ کرے۔
اسی طرح ساہیوال سے ملک نعمان لنگڑیال سیٹ جبکہ اسحاق خاکوانی وہاڑی سے سیٹ ایڈجسمنٹ چاہتے ہیں، طارق بشیر چیمہ اپنے حلقے سے ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کے خواہاں ہیں۔
دوسری جانب لیگی رہنما طلال چوہدری اور دانیال عزیر کا معاملہ بھی زیر غور ہے جس پر پارٹی سوچ بچار کر رہی ہے کہ اگر سیٹ ایڈجسمنٹ کرنا بھی ہے تو کون سے ایسے حلقے ہیں جہاں ان کے دیرینہ رہنما یا کارکن ناراض نہ ہوں اور اگر ہوں تو انہیں کہاں ایڈجسٹ کیا جائے۔
اس لیے نواز شریف خود چاہتے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم صبر و تحمل سے کی جائے، ن لیگ نے تقریباً تمام حلقوں سے امیدواروں کی عوامی پذیرائی کے سروے بھی کروائے ہیں، ڈویژن سطح پر رپورٹس بھی مرتب کی گئی ہیں، تاہم کچھ حلقوں کی رپوٹس اب موصول ہوئی ہیں،لیگی قیادت انتخابی صورتحال دیکھتے ہوئے ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کرے گی۔
تیسری وجہ بلے کا نشان بھی ہے؟
لیگی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کو انتخابات میں کیا نشان ملتا ہے ایک لحاظ سے امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہ کرنے کا باعث بھی ہے، پارٹی اس کو بھی مد نظر رکھا ہے کہ اگر پی ٹی آئی بلے کا انتخابی نشان بچا لیتی ہے تو سیٹ ایڈجسمنٹ والا معاملہ یا سفارشی ٹکٹ دینا پارٹی کے لیے مشکل ہوگا، ایسی صورت میں قائدین بلے کے نشان کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹکٹ جاری کرسکتے ہیں۔