8 مارچ 1962ء کو عیدالفطر کا دن تھا۔ اس دن کراچی کے سینما گھروں میں ایک ایسی فلم نمائش پزیر ہوئی جس نے یوں تو صرف سلور جوبلی منائی مگر اس فلم نے پاکستان کی فلمی صنعت پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔
اس فلم نے پاکستان کی فلمی دنیا کو محمد علی، زیبا، دیبا، کمال ایرانی اور طلعت حسین جیسے فنکار عطا کیے۔ یہ فلم دبستان (محدود) نامی فلم ساز ادارے کے تحت بنائی گئی تھی جس کے روح رواں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ فضل احمد کریم فضلی تھے۔ وہ بطور شاعر اور ادیب تو پہلے سے معروف تھے لیکن اس فلم نے انہیں بطور فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نگار ایک نئی شناخت عطا کی۔ گوکہ وہ اس سے پہلے ہندوستان میں فلم معصوم کی کہانی اور مکالمے لکھ چکے تھے۔
فضل احمد کریم فضلی 4 نومبر 1906ء کو بہرائچ (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آئی سی ایس میں شمولیت اختیار کی جبکہ ان کے 2 بھائی حسنین فضلی اور سبطین فضلی فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔ یہ وہی سبطین فضلی تھے جن کے کریڈٹ پر سپر ہٹ فلم دوپٹہ موجود تھی۔
فلم ‘چراغ جلتا رہا’ کئی حوالوں سے معروف ہوئی۔ مثلاً اداکارہ دیبا جو اس سے پہلے بے بی راحیلہ کے نام سے کئی فلموں میں بطور چائلڈ اسٹار کام کرچکی تھیں، وہ محمد علی کے ساتھ سائیڈ ہیروئن آئیں۔ انہیں دیبا کا فلمی نام فضل احمد کریم فضلی نے دیا تھا۔
یہ پہلی فلم تھی جس کے لیے ملکہ ترنم نور جہاں نے پہلی بار کراچی آکر گانے ریکارڈ کروائے۔ یہ گانے ایسٹرن اسٹوڈیوز کے ریکارڈنگ ہال میں اقبال شہزاد نے صدا بند کیے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اس فلم کا افتتاح مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔ یہ افتتاحی شو 3 مارچ 1962ء کو کراچی کے نشاط سینما میں منعقد ہوا تھا، اس موقع پر فلم کی پوری کاسٹ موجود تھی۔
فلم ‘چراغ جلتا رہا’ کا نام ابتدا میں ‘شاکر’ رکھا گیا تھا۔ فلم کی کہانی ایک عمر رسیدہ اور بااصول انسان شاکر (وحید محمود) کے گرد گھومتی تھی جو ایک چھوٹے سے قصبے میں اسکول ہیڈ ماسٹر تھا۔ وہ ایک مفکر اور شاعر بھی تھا اور اس کی ان خوبیوں کی بدولت ہر فرد اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہیں ایک متمول سیاستدان (امیر خان) محض اس لیے اپنی بیٹی جمیلہ (زیبا) کی شادی اس کے لڑکے جمیل (عارف) سے کردینے کا متمنی تھا کہ اس طرح شاکر کے اثر و رسوخ اور ہر دل عزیز کی بنا پر اسے انتخابات جیتنے کے لیے ووٹ مل جائیں گے۔
رشتہ طے ہونے کے بعد جب سیاستدان شاکر سے اس کے طلبا کی مدد کا خواہاں ہوتا ہے تو اصول پرست شاکر صاف منع کردیتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کی نوکری چلی جاتی ہے بلکہ اسے کراچی بھی چھوڑنا پڑتا ہے اور پھر وہ زندگی کے تلخ حقائق سے نبرد آزما ہوکر کامیابی و کامرانی حاصل کرتا ہے۔
اس فلم کی کہانی جس میں حتیٰ الوسع رضائے خداوندی کے سامنے سر جھکانے اور صابر و شاکر رہنے کی تلقین کی گئی تھی تو اس کے ساتھ ساتھ تدبیر و عمل کی تعلیم پر بھی زور دیا گیا تھا۔
اس فلم میں عارف ہیرو اور زیبا ہیروئن تھی۔ محمد علی نے ریاست کے نواب کمال ایرانی کے بھائی کا کردار ادا کیا تھا۔ محمد علی اس سے قبل ‘آنکھ اور خون’ اور ‘بازی گر’ میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے تھے مگر ‘آنکھ اور خون’ مکمل ہی نہ ہوسکی تھی جبکہ فلم ‘بازی گر’ کی ریلیز ‘چراغ جلتا رہا’ کے بعد ہوئی یوں ‘چراغ جلتا رہا’ ان کی پہلی فلم قرار پائی۔
دیبا، عارف کی بہن اور وحید محمود کی بیٹی تھی جبکہ دیگر اداکاروں میں محمود علی، صفیہ معینی، مغل بشیر، روما، پرنسز امینہ اور نینا کے نام شامل تھے۔
اس فلم کی موسیقی ریڈیو کے معروف موسیقار نہال عبداللہ نے ترتیب دی تھی۔ یہ بطور موسیقار ان کی پہلی اور آخری فلم تھی۔
فلم میں جگر مراد آبادی کی مشہور غزل ‘آئی جوان کی یاد تو آتی چلی گئی’ ایم کلیم کی آواز میں شامل کی گئی جبکہ میر تقی میر کی غزل
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کی گئی یہ غزل زیبا پر فلم بند ہوئی۔ اسی زمانے میں معروف بھارتی گلوکار طلعت محمود بھی کراچی آئے ہوئے تھے چنانچہ ان کی آواز میں ایک گیت اور ایک غزل بھی ریکارڈ کی گئی جو فلم کے ہیرو عارف پر فلم بند ہوئے۔
گیت کے بول تھے ‘مشکل نکلا دل کا سنبھلنا ہم نے دیکھا لاکھ سنبھل کے’ اور دوسری غالب کی غزل ‘کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی’۔ میر تقی میر اور غالب کی غزلوں کے صرف مکھڑے شامل کیے گئے باقی شاعری فضل احمد کریم فضلی نے کی۔ طلعت محمود کی آواز میں ماہر القادری کا سلام ‘سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دست گیری کی’ بھی ریکارڈ ہوا، مگر یہ سلام فلم کی طوالت کے پیش نظر شامل نہیں کیا گیا۔
اس فلم کے عکاس ساوک مستری تھے جبکہ تدوین ندیم عرف انکل نے کی تھی جو بھارتی فلموں کے معروف تدوین کار پرکاش اگروال کے شاگرد تھے اور جن کے کہنے پر بھارت سے پرکاش اگروال خاص طور پر لاہور آئے تھے اور 3 فلموں ‘اکیلی’، ‘نوکری’ اور ‘داتا’ کی تدوین کی تھی۔
فلم ‘چراغ جلتا رہا’ جمعرات 8 مارچ 1962ء کو عیدالفطر کے موقع پر نشاط سینما کے علاوہ دیگر 3 سینما گھروں (ریجنٹ، نگار اور خیام) میں ریلیز ہوئی۔ یہ فلم نشاط سینما پر 15 ہفتے تک نمائش پذیر رہی جبکہ اس نے مجموعی طور پر 26 ہفتوں کا سنگِ میل عبور کیا اور یوں سلور جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔
فلم کی کامیابی پر ہفت روزہ نگار کے مدیر الیاس رشیدی نے کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں ایک شاندار عصرانہ دیا جس میں فلم کی کاسٹ کے علاوہ معززین شہر نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔
اس فلم کے افتتاحی شو میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے موضوعاتی فلم بنانے پر فضلی صاحب کی تعریف کی۔ بعد میں حکومتِ پاکستان نے 50 ہزار روپے کی خطیر رقم فضل احمد کریم فضلی کو علاوہ ان کی فلم ‘چراغ جلتا رہا’ کے انٹرٹینمنٹ ٹیکس کی ادائیگی کے لئے دی جبکہ یہ طے پایا کہ اس رقم سے ان فلم سازوں کی اعانت کی جائے گی جو مقصدی فلمیں بنانا چاہتے ہیں۔
لاہور میں یہ فلم جمعہ 28 ستمبر کو لاہور کے رٹز سینما میں 6 ہفتے تک زیرِ نمائش رہی۔ اس موقع پر جو اشتہار شائع کیا گیا اس میں صدرِ مملکت محمد ایوب خان، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، وزیر خارجہ منظور قادر اور سابق وزیر اقتصادی ہم آہنگی محمد شعیب کے تبصرے بھی شامل کیے گئے تھے۔
‘چراغ جلتا رہا’ کے بعد فضل احمد کریم فضلی نے ‘ایسا بھی ہوتا ہے’ اور ‘وقت کی پکار’ کے نام سے 2 مزید فلمیں بھی بنائیں۔ فضل احمد کریم فضلی شاعر بھی تھے اور ناول نگار بھی۔ ان کے شعری مجموعوں میں نغمہ زندگی اور چشم غزال اور ناولوں میں خون جگر ہونے تک اور سحر ہونے تک کے نام شامل ہیں۔ ان کا انتقال 17 دسمبر 1981ء کو کراچی میں ہوا اور وہ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔