امریکی حکومت کے قرضے تاریخ میں پہلی بار 340 کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جو چین کے کل قرضے کے دگنے سے بھی زیادہ ہیں۔
رشیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق آبادی پر تقسیم کرنے کی صورت میں ہر ایک امریکی شہری اب ایک لاکھ 2 ہزار ڈالر یا ہر خاندان 2 لاکھ 60 ہزار ڈالر کا مقروض ہے۔
امریکی مالیاتی ادارے پیٹر جی پیٹرسن فاؤنڈیشن کے مطابق امریکی حکومت کا مجموعی قرض تقریباً چین، جرمنی، جاپان، بھارت اور برطانیہ کی مشترکہ معیشتوں کے حجم کے برابر ہے۔
فاؤنڈیشن کے سی ای او مائیکل پیٹرسن نے کہا کہ ہم ایک نئے سال کا آغاز کر رہے ہیں لیکن ہمارا قومی قرض اسی نقصان دہ اور غیر پائیدار راستے پر گامزن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سال قرضوں میں کھربوں ڈالر کا اضافہ امریکی پالیسی سازوں کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔
آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق چینی حکومت کے قرضوں کا حجم گزشتہ سال کے اختتام پر 140 کھرب ڈالر تھا لیکن امریکی حکومت کا قرضہ دنیا کے 5 سب سے بڑے قرض دہندگان چین، جاپان، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے مجموعی قرضے کے برابر ہے۔
چینی حکومت کے قرضے چین کے جی ڈی پی کے 83 فیصد ، امریکی حکومت کے قرضے امریکا کے جی ڈی پی کے 123 فیصد اور جاپان کی حکومت کے قرضے جاپان کے جی ڈی پی کے 255 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ 3 سال قبل صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکی قرضوں میں 62.5 کھرب ڈالر یعنی 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
امریکا کے حکومتی قرضوں کا حجم 60 کھرب ڈالر تک پہنچنے میں تقریباً 225 سال لگے لیکن گزشتہ 2 دہائیوں میں امریکی حکومت کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس میں باراک اوباما کی 8 سالہ صدارت کے دوران 90 کرب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوا پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے 4 سالہ دور میں 78 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
مزید براں گزشتہ مالی سال کے دوران امریکی قرضوں پر سود 659 ارب ڈالر تک پہنچ گیاجو روس کے وفاقی بجٹ کا دوگنا ہے۔
رواں مالی سال کے دوران امریکی حکومت کے قرضوں پر سود کا حجم 750 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے جو یومیہ 2 ارب ڈالر بنتا ہے۔