کامیڈین مشتاق خان کو لگ رہا تھا کہ ہدایت کار انیس بزمی کی فلم ’ویلکم‘ میں کام کرکے وہ اپنے وقت اور کیرئیرکو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عکس بندی سے فارغ ہوتے تو اور زیادہ پریشانی بڑھ جاتی۔ جب ہوٹل آتے تو راتوں کو نیند نہ آتی، عالم یہ تھا کہ کھانا تک نہیں کھایا جارہا تھا۔ وجہ صاف تھی کہ جب سے ’ویلکم‘ کی عکس بندی کا آغاز ہوا تھا تو ان کا کردار بس ساکت ہی تھا۔ نانا پاٹیکر، انیل کپور اور اکشے کمار کے مناظر ہوتے تووہ نانا پاٹیکر کے عقب میں معذور بن کر اور بیساکھی لے کر ساتھی اداکار کے ساتھ بس کھڑے ہوتے۔ یہ سلسلہ کئی دنوں سے جاری تھا۔
مشتاق خان خاصے تذبذب کا شکار تھے۔ اب تک وہ بغیر کسی مکالمے کے ساتھ مختلف مناظر میں خاموش تماشائی ہی بنے ہوئے تھے جن کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ اکشے کمار، نانا پاٹیکر یا انیل کپور کے مناظر کے دوران چہرے کے تاثرات کا اظہار کریں اور وہ بھی گردن کندھے کی طرف جھکا کر۔ بظاہر تو انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ2007میں نمائش پذیر ہونے والی فلم’ویلکم‘ کا حصہ بن کر انہوں نے گھاٹے کا سودا کیا۔ کیونکہ وہ 80کی دہائی سے فلم نگری سے جڑے تھے۔ اس دوران انہوں نے دل ہے کہ مانتا نہیں، باپ نمبری بیٹا دس نمبری، ہم ہیں راہی پیار کے، عاشقی، اکیلے ہم اکیلے تم، ناراض، راجا اور ہیرا پھیری جیسی بہترین فلموں میں کام کرکے خود کو منوالیا تھا۔
ہدایتکار انیس بزمی کی ’ویلکم‘ سے پہلے مشتاق خان ان کی پیار تو ہونا ہی تھا، گوپی کشن، رادھے شیام سیتارام اور سینڈوچ میں بھی کام کرچکے تھے۔ ایک دن جب انہوں نے وہی کچھ کیا جو کئی روز سے کرتے آرہے تھے تو ان کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ ٹھان لی کہ آج کچھ بھی ہوجائے ہدایتکار انیس بزمی سے دو ٹوک بات کرکے ہی رہیں گے چاہے انہیں اس فلم سے محروم ہی ہونا پڑ جائے۔ اور پھر وہ لمحہ آبھی گیا۔ مشتاق خان ہدایتکار انیس بزمی کے سامنے پہنچے اور اپنا شکوہ بیان کردیا۔ انیس بزمی نے انہیں اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اپنے مخصوص انداز میں بولے کہ مشتاق بھائی کیوں پریشان ہورہے ہو، آپ کا کریکٹر بنے گا۔ مشتاق خان نے برجستہ کہا کہ کب بنے گا میں تو پانچ چھ دن سے بس اسٹک لے کر کھڑا ہوں۔ مجھے تو کوئی چانس نہیں نظر رہا۔ انیس بزمی نے بھی تڑخ کر کہا کہ جب آپ کا کریکٹر سامنے آئے گا تو پتا لگ جائے گا۔ ابھی تو عکس بندی کا آغاز ہے۔ سو ڈیڑھ سو دن تک عکس بندی چلے گی۔ جب کھل کر آپ کا کریکٹر آئے گاپھر آپ کا شکوہ دور ہوجائے گا۔ انیس بزمی یہ کہہ کر اگلے منظر کی عکس بندی کے لیے اٹھ چکے تھے لیکن مشتاق خان کو یہی لگا کہ وہ صرف دلاسہ دے رہے ہیں۔
اور پھر ایک دن فلم کا ایک منظر یہ تھا کہ گینگسٹر ادھے یعنی نانا پاٹیکر کی بہن کترینا کیف کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے تو ادھے انتہائی غصے میں ہوتا ہے۔ ایسے میں انیس بزمی نے مشتاق خان کو سمجھایا کہ ان کا منظر کیا ہے۔ ادھے شیٹی غصے میں ہوں گے اور پھر وہ مشتاق خان یعنی بلو کو مخاطب کرکے بولیں گے کہ بلو بتا بتامجھے غصہ آتا تو کیا ہوتا ہے؟
انیس بزمی نے مشتاق خان کو اسکرپٹ تھمایا جس میں لکھا تھا کہ انہیں اس مرحلے پرکیا مکالمہ بولنا ہے اوروہ کچھ یوں تھا کہ ‘میری ایک ٹانگ نقلی ہے، میں ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی تھا۔ ایک دن ادھے بھائی کو میری کسی بات پر غصہ آگیا تو میری ہاکی اسٹک سے میری ٹانگ کے چار ٹکڑے کردیے لیکن دل کے بہت اچھے ہیں۔ فوراً ہاسپٹل لے کر گئے، آپریشن کرایا، نئی ٹانگ لگوادی۔ یہ اسٹک دی۔ تھوڑا خرچا دیا۔ اور۔ ۔ ‘
مشتاق خان کو بتایا گیا کہ نانا پاٹیکر فلم میں بیشتر مواقع پر انہیں مخاطب کرکے کہیں گے کہ بتا بتا بلو مجھے غصہ آتا ہے تو میں کیا کرتا ہوں۔ اور پھر مشتاق خان کو بار بار یہی مکالمے ادا کرنے ہیں۔ اب مسئلہ یہ پیش آیا کہ ہدایتکار سمیت اسٹاف یہ سوچنے لگا کہ ان مکالمات کو مشتاق خان سے کیسے ادا کرایا جائے۔
مشتاق خان سب دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے انیس بزمی کو مخاطب کرکے کہا کہ دیکھیں یہ طاقت ور مکالمات ہیں اور ’ویلکم‘ میں بار بار آئیں گے تو میں اسے ایسا ادا کروں گا کہ جیسے ادھے بھائی نے ٹیپ ریکارڈر کا بٹن دبا دیا اور میں کسی رٹے رٹائے طوطے کی طرح تیزی کے ساتھ اسے بولنا شروع کردوں گا۔ اور جب تک ادھے بھائی روکیں گے نہیں تب تک تواتر کے ساتھ پھر یہی واقعہ بار بار سناؤں گا۔ جہاں ادھے بھائی روکنے کو بولیں گے تویک دم رک بھی جاؤ گا۔ مشتاق خان کا کہنا تھا کہ ان مکالمات کو ادا کرتے ہوئے وہ تاثرات سے عاری چہرہ رکھیں گے۔
انیس بزمی نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے مشتاق خان کو مکالمات یاد کرنے کے لیے وقت دیا۔ سیٹ پر ایک کونے میں بیٹھ کر مشتاق خان نے کئی بار ریہرسل کی اور پھر جب ان کا منظر عکس بند کیا اور نانا پاٹیکر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے انتہائی غصے میں مکالمہ ادا کیاکہ بلو بتا بتامجھے غصہ آتا تو کیا ہوتا ہے؟ بس پھر کیا تھا مشتاق خان طوطے کی طرح بولنا شروع ہوگئے اور بغیر ٹیک دیے انہوں نے یہ مکالمہ ادا کیا تو سیٹ پر موجود ہر شخص کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
اب فلم میں جب بھی مشتاق خان کا منظر آتا تو ان کا یہ مخصوص اور چلبلا سا مکالمہ مسکرانے پر مجبور کردیتا۔ یہی نہیں ان کا فلم ’ویلکم‘ میں نانا پاٹیکر اور ساتھی فنکار کے ساتھ ہنسنا بھی اب تک ایک ٹریڈ مارک بن گیا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ منفرد اور دلچسپی سے بھری ہے کہ مشتاق خان کایہ مکالمہ شہرت حاصل کرگیاجس پر سوشل میڈیا میں آج تک کئی ’میمز‘ بھی بنتی آئی ہیں۔
مشتاق خان نے 2015میں ’ویلکم‘ کے سیکوئل میں بھی کام کرکے فلم بینوں کو لوٹ پوٹ کیا۔ مشتاق خان جنہیں ابتدا میں یہ خوف ستا رہا تھا کہ انہوں نے ’ویلکم‘ میں کام کرکے اپنے طویل کیرئیر کو داؤ پر لگادیا ہے۔ بلو اور اس کے شگفتہ چھوڑتے مکالمے نے انہیں نئی پہچان دی اور آج تک وہ اسی کردار کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اس حقیقت سےانکار نہیں کہ ” ویلکم ” بالی وڈ کی ایور گرین کامیڈی فلموں میں سے ایک ہے۔ جس کا ہر کردار اپنی بے ساختہ اور فطری کامیڈی کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔