اسلحے کی دکان میں قائم اپنی نوعیت کی منفرد لائبریری

جمعہ 5 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’جب میں یہاں آئی مجھے کچھ نہیں آتا تھا، اردو میں بات کرسکتی تھی نہ ہی مجھے کسی چیز کی سمجھ آتی تھی، لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران میں اس قابل ہو گئی ہوں کہ اب نہ صرف اچھی اردو بول سکتی ہوں بلکہ کسی کے بھی سامنے تقریر کرسکتی ہوں۔‘

کوہاٹ کے نواحی علاقے درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والی 8 ویں جماعت کی 13 سالہ طالبہ ایمان نواز اسکول سے چھٹی ہونے کے بعد درہ آدم خیل کی لائبریری میں موجود تھیں۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں لڑکیاں کسی سے بھی کم نہیں ہیں، ہمیں کسی سے بھی ڈرنا نہیں ہے بلکہ ہمیں اس معاشرے میں تعلیم اور شعور کے ذریعے اپنی طاقت دکھانا ہے۔

ایمان کی خواہش ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کمشنر بنیں، ان کے والد انہیں بہت سپورٹ کرتے ہیں اس لیے وہ کوہاٹ کے ایک اسکول سے واپسی پر دوپہر کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسے جاتی ہیں اور وہاں سے چھٹی ہونے کے بعد لائبریری کا رخ کرتی ہیں۔

درہ آدم خیل لائبریری میں ایمان کی پسندیدہ کتابیں انگلش کی ہیں، جس سے ان کے بقول انہوں نے کافی کچھ سیکھا ہے اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ اپنا مطالعہ جاری رکھیں تاکہ ان کے کمشنر بننے کا خواب پورا ہوجائے۔

انہوں نے بتایا کہ اس لائبریری کی بدولت بچوں کو اپنے نصاب سے ہٹ کر کتابیں پڑھنے کو ملتی ہیں، جس سے ان کے معاشرتی علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ’وہ ان بچوں سے زیادہ ذہین اور پڑھے ہوتے ہیں جن کی پہنچ صرف نصابی کتابوں تک محدود ہوتی ہیں، یہاں ہم مفت میں اپنی مرضی کی کتابیں پڑھتے اور گھر لے جاسکتے ہیں۔‘

بندوقوں کے ڈھیر پر کتابوں کو سجانا

درس و تدریس سے وابستہ راج محمد آفریدی کا تعلق بھی پشاور سے 40 کلو میٹر دور آدم خیل سے ہے، انہوں نے 2018 میں اسی سوچ کی وجہ سے درہ آدم خیل میں لائبریری قائم کی کیونکہ یہاں ہر قسم کی سہولیات کے باوجود لوگوں خصوصاً بچوں کی کتاب تک رسائی نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت درہ بازار کی اس دکان میں کتابیں رکھیں جو کبھی ان کے اسلحے کی دکان ہوا کرتی تھی۔

انہوں نے بتایا ایک سال کے دوران مخلتف غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے ان کی اس کاوش کو سراہا گیا اور انہیں مقامی لوگوں کی جانب سے لائبریری کے لیے زمین بھی عطیہ کی گئی جہاں انہوں نے نئی عمارت بنائی، فرنیچر خریدا اور مزید نئی کتابیں فراہم کیں، جسے پڑھنے کے لیے بچے اور نوجوان دونوں اس لائبریری کا رخ کرتے ہیں۔

راج محمد سمجھتے ہیں کہ کتابوں کی بدولت ہم جتنا آگے بڑھ سکتے ہیں اتنا اسلحے سے نہیں بڑھ سکتے، اس لیے انہوں نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے جس کا مقصد نئی نسل کو کتاب سے روشناس کرنا ہے۔

’ابتدا میں بیشتر لوگوں کی جانب سے ہمیں یہی رد عمل ملا کہ آپ نے درہ آدم خیل کے اس مقام پر لائبریری بنائی ہے جہاں پر صدیوں سے ہتھیار بنائے جاتے ہیں، جس کے جواب میں ہمارا کہنا تھا کہ ضرورت تو ایسی ہی جہگوں پر ہے جہاں زیادہ تر لوگوں کا رجحان اسلحے کی طرف ہے۔‘

راج محمد اس بات پر خوش ہیں کہ لائبریری میں ایک سال کے دوران 5 سو سے زیادہ شہریوں نے رجسٹریشن کرائی، جن میں 50 فیصد خواتین شامل ہیں۔ ’علاقائی رسم و رواج کی وجہ سے خواتین لائبریری نہیں جاسکتیں، لہذا وہ اپنے والد، بھائی یا شوہر کو لائبریری بھیج کر اپنی پسند کی کتابیں گھر منگواتی ہیں اور اپنا مطالعے کا شوق پورا کرتی ہیں۔‘

درہ آدم خیل کی اس منفرد لائبریری میں اس وقت 7 ہزار کے لگ بھگ کتابیں موجود ہیں، جن میں زیادہ تر پشتو، اردو، انگلش اور اسلامی کتب ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp