’عمرانی‘ سیاست بند گلی میں

جمعہ 5 جنوری 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عمران خان نے قومی کرکٹ ہیرو ہونے کی حیثیت سے جو عروج دیکھا وہ شاید کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا۔ کئی ملکوں میں پاکستان کی پہچان بنے۔ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی اور ورلڈ کپ جیت کر پاکستانی عوام کے دل جیت لیے۔

شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا تو عوام نے بھی ان کے منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے دل کھول کر مالی مدد فراہم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ یعنی جو ٹھان لیا تو اسے حاصل کیا اور اس کی خاطر وہ آخری حد تک گئے۔

سیاست میں عمران خان کو کامیابی کے لیے خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ اس مسلسل جدوجد کے بعد آخرکار 30 اکتوبر 2011 کو لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں ایک تاریخی جلسے کے بعد ان کی سیاست نے نیا ایک نیا رخ لیا اور ملکی سیاست کے مرکزی کرداروں میں شامل ہوگئے۔

 2014 کے دھرنے کے دوران انہوں نے پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو ’لوٹے‘، ’لٹیرے‘ اور ’چور‘ قرار دیتے ہوئے اپنی معصومیت، ایمانداری اور محب الوطنی کے گیت گائے۔

انہوں نے جس سیاستدان یا بیوروکریٹ پر الزام لگایا ان کے مداحو ں جن میں زیادہ تر مڈل کلاس اور نوجوان شامل تھے، نے بلاتصدیق سچ مان لیا۔ پھر سپریم کورٹ نے ان کے سب سے بڑے حریف نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ وہ عوامی نمائندہ ہوتے ہوئے صادق اور امین نہیں رہے اور اسی عدالت نے انہیں صادق اور امین قرار دے کر ان کے کردار پر مہر ثبت کر دی۔

پھر کیا تھا عمران خان نے اگر کہہ دیا کہ نجم سیٹھی نے الیکشن میں ’35 پنکچر‘ لگا کر نواز شریف کو 2013 کے انتخابات میں وزیراعظم بنایا تو ان کے ووٹرز نے بلا تردد سچ مان لیا اور نجم سیٹھی کو پاکستان تحریک انصاف کا دشمن قرار دے دیا۔

اگرچہ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر نواز شریف اور آصف زرداری کی 200 ارب ڈالر کی دولت پاکستان لائیں گے اور ملک کو قرضوں کے جال سے نکالیں گے اور پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے تو پوری پاکستان تحریک انصاف اور ان کے حمایتیوں نے آنکھیں بند کر کے مان لیا کہ یہی سچ ہے۔

عمران خان کی اس خوبی کہیں یا خرابی، نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جب عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنایا تو انہیں وسیم اکرم پلس قرار دے دیا اور ہائبرڈ نظام کے بڑے پارٹنر جنرل قمر جاوید باجوہ کو عظیم ترین جنرل قرار دے دیا۔

تعریف کی تو حد کردی، حکومت کے دوران ہر قدم تاریخی اور شخصیت عظیم تر، جب تنقید کی تو اسے زمین پر گرا دیا اور انہوں نے جو کہا ان کے چھوٹے بڑے، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سبھی نے اپنی سوچ پر پردہ ڈال کر اور آنکھیں بند کرکے سچ تسلیم کر لیا۔ آخر پاکستان کی عدالت عظمیٰ انہیں صادق اور امین قرار دے چکی تھی۔

جب کایا پلٹی اور ملک کے تاریخی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تو انہوں نے اپنی اسی خوبی یا خرابی کے ذریعے اپنے ہمدرد جنرل قمر جاوید باجوہ اور فوجی افسران کو نشانے پر لے لیا۔

عمران خان کہنے لگے کہ جنرل باجوہ نے امریکی سازش کے ذریعے انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا۔ اپنی فوج کو محب وطن اور ملک کی محافظ قرار دینے والے عمران خان نے اسی فوج کو ہر برائی کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کرنے اور اسے تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو غیر ملکی ایجنٹ اور غدار قرار دینے والے خود ان کے اپنے حمایتی بالخصوص سوشل میڈیا بریگیڈز تمام حدیں پار کرگئے۔

 عمران خان نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ان کی لڑائی آرمی چیف کا ساتھ ہے۔

انسانی حقوق کے علمبرداروں کو ڈالر کھانے والے خونی لبرلز اور صحافت میں سچ لکھنے اور ڈان جیسے معتبر اخبار کو مغرب کا ایجنٹ اور لفافہ صحافت قرار دے کے داغدار کرکے نئی نسل کو ایسی ڈگر پر ڈال دیا کہ وہ عمران خان کے سحر سے نکلنے کو تیار نہیں۔

سپریم کورٹ کے حالیہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی فیملی کے خلاف ریفرنس دائر کرکے ان کے کردار کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ وہ بعض غلطیوں کا اعتراف کرچکے ہیں مگر ان کے حمایتی اب ان کی وہی بات سچ مانتے ہیں۔

اقتدار سے ہٹنے کے بعد الزامات کی بھرمار اور کردار کشی سے وہ پہلے سے زیادہ مقبول ہوئے کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ امریکا کو پاکستان میں بیشتر معاشی اور سماجی خرافات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

عمران خان کو مقبولیت تو ملتی گئی مگر قبولیت ان سے دور ہوتی گئی۔ اپنی جنگ کا ہدف قرار دینے کے ساتھ وہ ان سے رابطہ نہ ہونے کی شکایت بھی کرتے نظر آئے۔  پھر 9 مئی کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے تو انہیں بالکل ہی بند گلی میں ڈال دیا۔

اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن اخبارات اور صحافیوں، آرمی افسران، چند بااصول سیاستدانوں اور بیورکریٹس کو وہ شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور انہیں اپنا سخت ترین مخالف قرار دیتے رہے وہ کیسے ان کے ہر معاملے پر ان کا کھل کر ساتھ دیں؟۔

 اتنی انتہا پر جانے کے بعد عمران خان فی الوقت قابل قبول نظر نہیں آتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیسے اس بند گلی سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور پاکستان میں تبدیلی لانے سے پہلے اپنے اندر کوئی تبدیلی لاتے ہیں؟ یا ہر ایک کو اتنقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کا عزم لیے بیٹھے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp