دھند کا راج: فضائی آلودگی حاملہ خواتین اور پیدا ہونے والے بچوں کے لیے زہر قاتل

ہفتہ 6 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ان دنوں ملک کے بیشتر شہروں میں دھند کے بادل چھائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف لوگوں کا گھر سے نکلنا محال ہے تو دوسری جانب انہیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا ہے۔

توانائی کے ماہرین نے دھند کو لوڈشیڈنگ کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوگئی ہے۔

یہ دھند فضائی آلودگی کا بھی سبب بھی بن رہی ہے جس کی وجہ سے عوام سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

ہر سال ایک لاکھ 28 ہزار پاکستانی فضائی آلودگی کی نذر ہوجاتے ہیں

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم فیئر فنانس پاکستان کے مطابق فضائی آلودگی ہر سال پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 128,000 جانیں لے جاتی ہے۔

آلودگی کے سبب ہر سال 10 لاکھ بچے دنیا میں آنکھ کھولنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں

ان اعدادوشمار سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اسموگ اور فضائی آلودگی کتنی خطرناک حدیں عبور کرچکی ہے۔ اسموگ اور فضائی آلودگی تمام انسانوں کے لیے شدید نوعیت کے طبی مسائل کا باعث ہے تاہم حاملہ خواتین پر اس کے اثرات غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کے مسئلے سے ہر سال لگ بھگ 10 لاکھ خواتین مردہ بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے گائناکالوجسٹ ڈاکٹر مہوش لکھانی نے بتایا کہ فضائی آلودگی کی طرح اسموگ بھی بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا باعث بنتی ہے اس کے علاوہ یہ سانس کے مسائل کا باعث بھی بنتی ہے جو حمل میں پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر مہوش نے کہا کہ فضائی آلودگی اور اسموگ کی وجہ سے ماں کے پیٹ میں بچے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایسی فضا میں پیدا ہونے والے بچوں کے وزن میں کمی دیکھنے میں آتی ہے، بلڈ پریشر اور لمبے عرصے تک دمے کے اثرات ملتے ہیں، الغرض بچے کو اسموگ سے اتنا ہی خطرہ لاحق ہے جتنا سگریٹ کے دھوئیں سے ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسموگ کی وجہ سے قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے، خصوصاً حاملہ خواتین کا آکسیجن لیول کم رہتا ہے اور بچے کو بھی آکسیجن کم ملتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حاملہ خاتون دمے کی مریضہ ہو تو یہ ماں اور بچے کی صحت کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 20 تا 30 فیصد بچوں کی موت کی وجہ سانس کا انفیکشن ہے۔ اس لیے حاملہ خواتین فضائی آلودگی اور ٹریفک کے ہجوم سے پرہیز کریں اور اگر ایسی کسی جگہ رہتی ہوں جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے تو گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے خود کو بچانے کی کوشش کریں اور ماسک کا استعمال کریں۔

دھند میں اضافے کی بنیادی وجوہات

ماحولیاتی تبدیلیوں کے ماہر علی توقیر نے دھند میں اضافے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی 2 بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے پیٹرول کا معیار اچھا نہیں ہے جس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اچھی کوالٹی کا پیٹرول درآمد کرے، کیونکہ غیر معیاری پیٹرول کی وجہ سے ہوا میں ٹھوس آلودہ ذرات جنم لیتے ہیں جو دھند اور فضائی آلودگی کا سبب بنتے ہیں اور یہ ذرات نہ صرف حاملہ خواتین کے لیے مضر ہیں بلکہ دیگر کی صحت کو بھی خطرناک حد تک متاثر کر سکتے ہیں۔

علی توقیر نے دھند کی دوسری وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سنہ 1990 یا اس سے بھی پہلے کی گاڑیاں بھی زیر استعمال ہیں جن سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوالٹی ٹیسٹ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ’ان فٹ‘ وغیر معیاری گاڑیاں سڑکوں پر گھوم رہی ہوتی ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ چلنے والی تمام گاڑیاں معیار کے مطابق ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کو فروغ دینا چاہیے تاکہ سڑکوں پر ذاتی گاڑیوں کی تعداد میں بھی کمی آئے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے باقاعدہ ادارے تشکیل دیے جائیں جو گاڑیوں کی فٹنس کو یقینی بنائیں۔

علی توقیر کا کہنا تھا کہ اگر فضائی آلودگی پر قابو نہ پایا گیا تو ہر دوسرا شخص سانس کی بیماری میں مبتلا ہوگا اور پری میچور (قبل از وقت) زچگیاں بڑھ جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ آلودگی کے ذرات ماں کے پیٹ میں بچوں کی نشوونما کو بھی متاثر کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp