ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کو تقریباً ایک ماہ رہ گیا ہے لیکن جس تیزی سے الیکشن کا وقت قریب آ رہا ہے اتنی ہی تیزی سے انتخابات کے حوالے سے بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسا کہ ایک روز قبل سینیٹ میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے قرارداد منظور ہوئی، اس کے بعد انتخابات 2024 کے حوالے سے پیچیدگیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
اس سے قبل انتخابات پر سوالیہ نشان یہ تھا کہ آیا 2024 کے انتخابات منصفانہ ہوں گے بھی یا نہیں؟ لیکن اب الیکشن التوا کی قرارداد منظور ہونے کے بعد انتخابات پر سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں؟
مزید پڑھیں
اس وقت ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے الیکشن زیر بحث ہیں، جبکہ دوسری جانب یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ الیکشن میں کچھ ہی ٹائم باقی ہے مگر روایتی انتخابی مہمات اب تک کہیں نطر نہیں آ رہیں، تمام سیاسی جماعتیں ایسے خاموش ہیں جیسے انہیں کوئی سانپ سونگھ گیا ہو۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی کہیں اس بات کا یقین تو نہیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے؟ تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتخابات نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟۔
وی نیوز نے عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پائی جانے والی بے یقینی سے متعلق سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
13 جنوری سے انتخابی مہم شروع ہو جائے گی، احمد بلال محبوب
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ابھی تو انتخابی مہم کا وقت شروع ہی نہیں ہوا کیونکہ کاغذات نامزدگی کے عمل میں وقت لگ رہا ہے، جونہی امیدواروں کا یہ عمل مکمل ہو جائے گا اور انہیں انتخابی نشانات مل جائیں گے اس کے بعد انتخابی مہم کی جانب تمام سیاسی پارٹیاں بڑھیں گی، جس کی مدت 13 جنوری سے شروع ہو جائے گی، اس کے بعد 3 ہفتے تک تمام پارٹیاں اپنی انتخابی مہم چلائیں گی۔
انہوں نے مزید کہاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب روایتی انتخابی مہم کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب سیاسی پارٹیاں سوشل میڈیا کے ذریعے مہم کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی انتخابی مہم میں زور و شور نظر نا آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ پوری دنیا میں بھی اب روایتی انتخابی مہم کا کلچر ختم ہو چکا ہے۔ لیکن دوسری جانب ابھی چونکہ وقت ہے اس لیے پارٹیوں نے انتخابی مہم شروع نہیں کی۔
انتخابات ملتوی ہوئے تو یہ بہت افسوسناک ہوگا
ایک سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے کہاکہ اگر الیکشن نہیں ہوتے تو حالات بہت افسوس ناک ہوں گے اور بے یقینی کی کیفیت مزید بڑھ جائے گی، بین الاقوامی ادارے ہمیں امداد دینے سے کترائیں گے، اقتصادی خطرات لاحق ہوں گے، سیاسی جماعتیں بھی اس چیز کو پسند نہیں کریں گی اور یہ جو سلیکٹیڈ حکومت ہے یہی مزید رہے گی جس کی وجہ سے ملکی معاشی حالات بھی بری طرح سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
سینیٹ میں منظور قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں، سرور باری
انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پٹن کے سربراہ سرور باری نے کہاکہ سینیٹ میں انتخابات کے التوا کی قرارداد منظور ہونے کے بعد بے یقینی کی صورتحال بہت بڑھ چکی ہے۔ ہر انسان کے دماغ میں ایک ہی بات ہے کہ انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں؟ اور اس کی وجہ بہت سی چیزیں ہیں، حالانکہ اب تک انتخابات کے حوالے سے تمام معاملات طے پا چکے ہونے چاہییں تھے، ’اس سے قبل کاغذات نامزدگی کا مرحلہ لیٹ ہوگیا۔ ان تمام چیزوں کی وجہ سے بے یقینی کی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے‘۔
’کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے کہ انتخابات ملتوی ہوں۔ لیکن حالات کچھ ایسے ہیں کہ پہلے جس طرح 90 دن گزر جانے کے باوجود پنجاب کے الیکشن نہیں ہوئے اور آئین کی خلاف ورزی ہوئی، انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے سوچا ہوگا جہاں پہلے خلاف ورزی ہو گئی، وہاں آئین کی تھوڑی اور خلاف ورزی ہو جائے تو کیا ہے‘۔
سردی اور دہشتگردی کے بہانوں سے کچھ نہیں ہوگا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سردی اور دہشتگردی کے جو بہانے بنائے جا رہے ہیں ان سے کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے قبل 3 بار الیکشن سردیوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ 2008 اور 2013 میں بھی دہشتگردی تھی مگر الیکشن تو پھر بھی ہوئے تھے۔
انتخابی مہم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سرور باری کا کہنا تھا کہ پارٹیاں خود ہی انتخابی مہم نہیں چلا رہیں کیونکہ انتخابی مہمات پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے اور اتنی رقم خرچ کے انتخابات ہی ملتوی ہو جائیں تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
’ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے وقت الیکشن تو نہیں ہوئے لیکن نامزدگی فیس ابھی تک امیدواروں کو واپس نہیں ملی، انہی خدشات کی وجہ سے سیاسی جماعتیں الیکشن مہم شروع کرنے سے کترا رہی ہیں‘۔
اگر انتخابات نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اگر انتخابات ابھی ملتوی ہو جاتے ہیں تو اتنا ردعمل نہیں آئے گا، لیکن اگر انتخابات یکم فروری یا اس کے بعد ملتوی ہوتے ہیں تو غصیلہ ردعمل بہت زیادہ ہوگا، لوگ مظاہرے کریں گے، توڑ پھوڑ کریں گے اور یقیناً ردعمل خطرناک ہوگا۔
ابھی تک پارٹیاں امیدوار فائنل کرنے میں مصروف ہیں، ترجمان فافن
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان رشید چوہدری نے بات کرتے ہوئے کہاکہ ایک روز قبل جیسے سینیٹ میں قرارداد منظور ہوئی اس طرح کی قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اور جہاں تک بات ہے کہ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے انتخابی مہم کا آغاز روایتی طریقے سے کیوں نہیں کیا تو اس کی ایک بڑی وجہ کاغذات نامزدگی کا مرحلہ مکمل نہ ہونا ہے۔ پارٹیاں ابھی تک امیدوار چننے میں مصروف ہیں۔
پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے اپنی مہم شروع کر دی ہے، رشید چوہدری
انہوں نے مزید کہاکہ انتخابی مہم میں ابھی وقت ہے اور 13 جنوری سے انتخابی مہمات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، اس کے بعد 6 فروری کی رات 8 بجے تک تمام سیاسی جماعتوں کے پاس انتخابی مہم کے لیے وقت ہوگا۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے تقریباً اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان فافن کا کہنا تھا کہ انتخابات 2024 میں طے شدہ وقت کے مطابق ہی ہوں گے۔ اس میں کوئی شکوک و شبہات نہیں۔
انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے، امتیاز عالم
سیاسی تجزیہ کار امتیاز عالم نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں، سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم سے براہِ راست تو نہیں روکا جا رہا لیکن کہیں نا کہیں روکنے کا عنصر موجود ہے۔
انہوں نے کہاکہ پنجاب میں جیسے دفعہ 144 لگائی گئی ہے۔ یہ سب بنیادی حقوق و آزادیوں کے خلاف ہے۔ کیونکہ سیاسی مہم کے لیے پہلے ہی وقت نہیں ہے اور اوپر سے تشہیر کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی اور کارنر میٹنگز کے لیے بھی اجازت لینا ہو گی۔
انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہاکہ انتخابات بالکل بھی ملتوی نہیں ہو سکتے، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے طے شدہ وقت کے مطابق انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔