مظفرآباد آزاد کشمیر میں 19ویں صدی کی بنی ٹنل کی خاص بات کیا ہے؟

اتوار 7 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مظفرآباد آزاد کشمیر کے مقام پر 19 ویں صدی کی ٹنل سیاحوں اور شادی شدہ جوڑوں کے لیے پر کشش مقام بن گئی ہے۔ ‏‎تاریخی ٹنل وہی ہے لیکن اس سے اب گھوڑا گاڑی نہیں گزرتی کیونکہ وہ دہایئوں پہلے معدوم ہوچکی ہے۔

یہ ٹنل اب ہر طرح کی آمد رفت کی لیے بند ہے۔  البتہ یہاں ایک مصنوعی گھوڑا گاڑی ہے جو تاریخی پس منظر کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ کشمیری دلہا دلہن نے اس مصنوعی گھوڑا گاڑی پر سوار ہوکر ان لمحات کو  کیمرہ میں قید  کرتے ہوئے کہا کہ وہ آنے والی نسل کو اس تاریخی مقام سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔

اپنے شوہر کے ہمراہ گھوڑا گاڑی پر سوار دلہن کینزہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مقام کا اس لیے انتخاب کیا کیوں کہ یہ مقام کشمیر  میں تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔

‏‎ کینزہ نے کہا ’یہاں فوٹو شوٹ کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو اس تاریخی مقام کے بارے میں بتا سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم ان لمحات کو یاد گار بنانا چاہتے ہیں۔ آج کا دن بہت اچھا ہے اور ہمارے لیے بہت اہم ہے‘۔

‏‎مظفرآباد شہر کے جنوب میں 5 کلومیٹر کے فاصلے پر امبور میں واقع 250 فٹ لمبی یہ ٹنل دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ہے۔

19 ویں صدی کے آخر میں جب سرینگر کو برصغیر سے جوڑنے کے لیے یہ سڑک تعمیر ہوئی تھی تو اس وقت پہاڑ کاٹ کر یہ ٹنل بنائی گئی تھی۔

ابتدا میں ٹنل کی جانب جانے والی سڑک کچی تھی اور اس راستے پر سفر کے لیے پہلے گھوڑا گاڑی اور بیل گاڑی استعمال ہوتے تھے۔ اسی راستے سے کشمیر کےشاہی خاندان بھی عیش و آرام والی گھوڑا گاڑی میں سفر کرتے رہے ہیں۔

19 ویں اور 20 صدی کے اوائل تک لوگ گھوڑا گاڑی اور بیل گاڑی کے ذریعے ہی سفر کرتے  تھے۔ بعد میں اس ٹنل کی جانب بسیں اور کاریں بھی چلنے لگیں۔

سنہ 2003 میں متبادل سڑک کو کشادہ کیا گیا تو پھر یہ ہر طرح کی ٹریفک کے لیے استعمال کی جانے لگی لیکن اس وقت یہ ٹنل کسی قسم کی ٹریفک کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔

کچھ سال ‏‎پہلے حکومت نے اس کو آثار قدیمہ کے مقام کا درجہ دے کر محفوظ کر لیا۔  سنہ 1911 کے فوٹو گرافر فرمان علی کی تصویر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مقام پر ایک مصنوعی گھوڑا گاڑی بھی رکھی گئی ہے۔

فرمان علی نے ٹنل کے ایک طرف کھڑی گھوڑا گاڑیوں کو کیمرہ میں قید کر لیا تھا۔  اب یہ مقام نہ صرف نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے اہمیت اختیار کرگیا ہے بلکہ سیاحوں کے لیے بھی پرکشش مقام بن گیا ہے۔ وہ اس مقام پر تصوریں بھی بناتے ہیں۔

‏‎آزاد کشمیر ایک روایتی معاشرہ ہے جہاں پہلے دلہا دلہن اس طرح اوٹ ڈور فوٹو شوٹ نہیں کیا کرتے تھے۔ لیکن چند سالوں سے یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے۔

شادی شدہ جوڑے اکثر اہم تاریخی اور سیاحتی مقامات کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس فوٹو شوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی بار کسی میڈیا آرگنائزیشن کو وڈیو بنانے یا تصویریں لینے کی اجازت دی گئی تھی ورنہ یہ فوٹو شوٹ خاندان والوں تک ہی محددو رہتا تھا۔

‏‎نئے دلہا دلہن کی طرف سے اس طرح کے تاریخی مقامات کو فوٹو شوٹ کے لیے استعمال کرنے سے نہ صرف ان مقامات کی معلومات نئی نسل تک منتقل ہوں گی  بلکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل یہ تاریخی مقامات مقامی اور قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر متعارف کروانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp