مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی، بلوچستان میں کس کی پوزیشن مضبوط ہوگی؟

منگل 9 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آئندہ انتخابات سے قبل رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بھی ان دنوں سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس بار بڑے صوبوں کی نسبت بلوچستان کو اہمیت دیتے ہوئے بھرپور تیاری کر رکھی ہے، جس کے لیے ایسے امیدواروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے جن سے جیت کی امید افزا توقعات رکھی جاسکتی ہیں۔

تاہم سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین آئندہ انتخابات میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہوگا کیونکہ دونوں ہی جماعتوں نے صوبے کے نامی گرامی قبائلی و سیاسی شخصیات کو نہ صرف پارٹی میں شامل کیا ہے بلکہ ٹکٹ جاری کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔

اگر دونوں جماعتوں کے امیدواروں کا جائزہ لیا جائے تو حال ہی میں مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری کردہ ٹکٹوں کی تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16نشستوں میں سے این اے 251 پر طور گل جوگیزئی، این اے 252 پر یعقوب خان ناصر، این اے 253 پر میر دوستین ڈومکی، این اے 255 پر خان محمد جمالی، این اے 257 پر سابق وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان، این اے 260 پر سردار فتح محمد حسنی جبکہ این اے 262 پر نواب سلیمان خلجی امیدوار ہوں گے۔

اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی 51جنرل نشستوں میں سے پی بی 4 پر سردار عبدالرحمن کھیتران، پی بی 6 پر سردار مسعود لونی، پی بی 7 پر نور محمد دومڑ، پی بی 12 پر عاصم کرد گیلو، پی بی 16 پر فائق جمالی، جبکہ پی بی 21 اور 22 پر جام کمال خان کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 261 پر نواب ثناء اللہ زہری، این اے 264 سے نوابزادہ جمال رئیسانی، این اے 252 پر اسرار ترین، این اے 263 پر روزی خان کاکڑ جبکہ این اے 265 پر خان محمد ترین امیدوار ہوں گے۔

اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی7 پر سردار سرفراز ڈومکی، پی بی 9 پر نصیب اللہ مری، پی بی 10 پر سرفراز بگٹی، پی بی 11 پر سیف اللہ مگسی، پی بی 13 پر صادق عمرانی، پی بی 16 پر چنگیز جمالی، پی بی 18 پر ثناءاللہ زہری، پی بی 23 پرسابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو جبکہ پی بی 25 پر میر ظہور بلیدی امیدوار ہوں گے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق یہ ان الیکٹیبلز کے نام ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات ہیں ان میں سے بیشتر ایسے امیدوار بھی ہیں جو ہر بار انتخابات میں اپنے علاقے کی نشست سے کامیاب ہوکر ایوان کا حصہ بنتے رہے ہیں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی کفایت علی نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی بجائے پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے الیکٹیبلزکو چنا ہے جس سے انکا پلڑا صوبائی اسمبلی کے ایوان میں بہتر نظر آرہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ ن نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے دیرینہ ساتھیوں کے ساتھ ساتھ الیکٹیبلز کو بھی چنا ہے۔

’تاہم ایسے امیدوار بھی ہیں جو بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب لڑ رہے ہیں جس سے یہ تاثر پایا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا زیادہ رجحان قومی اسمبلی کی نشستوں یا پھر قومی اسمبلی کے نمبر گیمز پر زیادہ ہے۔‘

سال 2013کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن سے اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نیشنل پارٹی نے،  مرکز میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت ہونے کے باعث، صوبائی سطح پر شرکتِ اقتدار کا ایک فارمولا متعارف کرایا تھا، جس کے مطابق پہلے ڈھائی سال نیشنل پارٹی جبکہ آخری ڈھائی سال مسلم لیگ ن کو وزارت اعلی ملی، جس پر صوبائی لیگی قیادت نے اس وقت تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بلوچستان میں ہمیشہ اپنی کمال سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ ایسی بساط بچھائی ہے جس سے پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا ہے، یہی سمجھ بوجھ انکی جانب سے امیدواروں کے انتخاب میں بھی نظر آرہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp